Maktaba Wahhabi

234 - 738
یہ مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں اور وہ یقینا راہِ اعتدال کی طرف راہنمائی کر گئے ہیں،جس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔صوفی عبدالحمید صاحب نے ’’نمازِ مسنون‘‘(ص:320)میں نہ صرف یہ کہ ضعیف روایتوں کو صحیح سے راجح قرار دیا ہے،بلکہ ’’زیرِ ناف‘‘ ہاتھ باندھنے کو ’’اَقْرَبُ إِلَی التَّعْظِیْمِ‘‘ قرار دیا ہے۔حالانکہ انھوں نے ان ہر دو باتوں میں نقل و عقل ہر دو کی خلاف ورزی کی ہے۔ مَرد و زَن کے ہاتھ باندھنے میں فرق: نماز میں ہاتھ باندھنے کے اس موضوع کو ختم کرنے اور ثنا وغیرہ کو ذکر کرنے سے پہلے ہم یہاں اس بات کی وضاحت کر دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘(1/ 249)ایسے ہی شرح نقایہ اور کبیری(بحوالہ نمازِ مسنون،صفحہ 320)نیز ’’السعایۃ حاشیہ شرح وقایۃ‘‘(بحوالہ ماہنامہ آثار)وغیرہ کی رُو سے احناف نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں بھی مَردوں اور عورتوں کے مابین فرق کیا ہے اور مَردوں کے زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کے برعکس عورت کے لیے اسی بات کو سنت مانا ہے کہ وہ سینے ہی پر ہاتھ باندھیں۔’’السعایۃ‘‘ میں مولانا عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے عورت کے حق میں اسی بات کے سنت ہونے پر علما کا اتفاق نقل کیا ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے،کیونکہ سنت سے صر ف سینے پر ہاتھ باندھنا ہی ثابت ہے،کسی دوسری جگہ نہیں۔یہی عورت کے لیے زیادہ پردے کا باعث ہے،جسے علماء احناف نے اصل سبب قرار دیا ہے،حالانکہ اس کی حیثیت ثانوی ہے اور اصل سبب اس کا سنت سے ثابت ہونا ہے۔جب ایک چیز حدیث شریف میں ثابت ہے اور حدیث میں اس کے لیے مَرد و زن کے مابین فرق بھی نہیں کیا گیا تو پھر ہمیں مَردوں اور عورتوں کے مابین ہاتھ باندھنے کی جگہ میں فرق کرنے کی کیا ضرورت ہے؟جبکہ اس فرق پر دلالت کرنے والی کوئی ایک بھی صریح و صحیح دلیل نہیں ہے،نہ مرفوع حدیث اور نہ کسی صحابی کا اثر۔[1] البتہ رکوع و سجود وغیرہ سے متعلقہ بعض ضعیف اور ناقابلِ استدلال روایات ملتی ہیں،جن کے بارے میں تفصیلی جائزہ ہم بھی رکوع و سجدے کے مسائل کے ضمن ہی میں پیش کریں گے،جبکہ اب صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ اگر وہ روایات،جنھیں بعض مولفین نے(مثلاً صاحبِ نمازِ مسنون،ص:320۔321)اس موضوع کے تحت جگہ دی ہے،صحیح ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ اُس مقام
Flag Counter