Maktaba Wahhabi

676 - 738
نے سلام پھیرنے پر ہمیشگی اختیار کی اور جس عمل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشگی فرمائیں،اس کی اہمیت واضح ہے۔ ((صَلُّوْا کَمَا رَأَ یْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))[1] ’’تم اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ والی حدیث بھی معروف ہے۔ ان صحیح احادیث کے پیش نظر سلام پھیرنے کو واجباتِ نماز میں شمارکیا جاتا ہے،بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے تو الاذکار میں سلام پھیرنے کو ’’رُکْنٌ مِنْ اَرْکَانِ الصَّلَاۃِ وَفَرْضٌ مِنْ فُرُوْضِہَا لَا تَصِحُّ اِلَّا بِہٖ‘‘ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ امام شافعی،مالک،احمد بن حنبل رحمہم اللہ اور جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے اور صحیح احادیث سے اسی بات کی صراحت ہوتی ہے۔[2] عدم وجوب کے دلائل اور ان کا جواب: احناف کے نزدیک سلام پھیرنا فرائض و واجبات میں سے نہیں ہے،بلکہ ان کے یہاں اگر کوئی شخص((اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ۔۔۔وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ))تک پڑھ چکے اور پھر وہ حادث ہو جائے،مثلاً اس کی ہوا خارج ہو جائے تو ان کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہے،اس میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ اس بات پر استدلال کے لیے ان کی طرف سے جو احادیث پیش کی جاتی ہیں،وہ وہی ہیں جو درود شریف کے عدمِ وجوب کے لیے بھی پیش کی جاتی ہیں۔ہم اس موقع پر وہ چھے احادیث ذکر کر چکے ہیں جن میں سے بعض مدرج والحاقی اور بعض ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہیں۔ان میں سے بعض صحیح تو ہیں،لیکن اس مسئلے میں وہ صریح نہیں کہ ان کو دلیل قرار دیا جا سکے۔بعض میں تعادل ہے کہ وہ جس قدر ایک طرف کی دلیل بن سکتی ہیں،اسی قدر وہ دوسری طرف کی دلیل بھی بن جاتی ہیں،لہٰذا ان سے محض ایک جانب کااستدلال صحیح نہیں ہوتا۔صحیح دلائل جس طرف ہوں ایسی حدیث کو انہی کی تائید میں ذکر کیا جا سکتا ہے اور وہ قائلین وجوب ہیں۔بعض میں عدم ذکر ہے جو عدمِ وجوب کا ثبوت نہیں ہوتا۔ان تمام امور کو عدمِ وجوب درود شریف کے دلائل کے طور پر چھے
Flag Counter