Maktaba Wahhabi

152 - 738
ان کا کہنا ہے کہ آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا زیادہ باعثِ خشوع ہے،جبکہ خشوع ہی نماز کی روح اور مقصود ہے۔آگے علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ان دونوں نظریات پر محاکمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اگر آنکھوں کو کھلا رکھنے سے خشوع میں خلل واقع نہ ہوتا ہو تو نماز میں آنکھیں کھلی رکھنا ہی افضل ہے اور اگر جانبِ قبلہ بیل بوٹے یا دوسری کوئی ایسی چیز ہو جو نمازی کی توجہ کھینچ لے اور دل کی توجہ نماز سے ہٹا دے تو ایسے میں آنکھوں کو بند رکھنا قطعاً مکروہ نہیں،بلکہ ایسی حالت میں آنکھوں کے بند رکھنے کو بہ نسبت مکروہ کہنے کے مستحب کہنا اصولِ شریعت اور اس کے مقاصد سے زیادہ قریب ہے۔[1] نیت اور اس کا حکم: یہ بات تو معروف ہے کہ تمام نیک اعمال میں ’’نیت‘‘ کو گہرا عمل دخل حاصل ہے۔یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ))[2] ’’اعمال کا دارومدار ہی نیتوں پر ہے۔‘‘ نیت واجب بلکہ شرط ہے،جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الایمان کے آخر میں ایک عنوان یوں قائم کیا ہے: ’’ بَابُ مَا جَائَ أَنَّ الْاَعْمَالَ بِالنِّیَّۃِ۔۔۔فَدَخَلَ فِیْہِ الْاِیْمَانُ وَالْوُضُوْئُ وَالصَّلَاۃُ وَالزَّکَاۃُ وَالْحَجُّ وَالصَّوْمُ وَالْاَحْکَامُ ‘‘[3] ’’اس چیز کا بیان کہ عملوں کا دار و مدار نیت پر ہے،تو اس میں ایمان،وضو،نماز،زکات،حج،روزہ اور تمام احکام و معاملات داخل ہیں۔‘‘ یہاں امام موصوف نے نیت کے وجوب و شرطیت کی طرف اشارہ فرما دیا ہے۔[4] یاد رہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے مروی یہ حدیث((إِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ))بڑی
Flag Counter