Maktaba Wahhabi

373 - 738
بھی ہیں جن کا جواب ساتھ ساتھ ہی دینا چاہیے،مثلاً جب رحمت کے ذکر پر مشتمل آیات گزریں تو اللہ سے رحمت طلب کریں اور اگر عذاب کا ذکر ہو تو اس سے اللہ کی پناہ مانگیں،اس طرح اگر اللہ کی بزرگی،برتری اور تسبیح کا مطالبہ ہو تو سبحان اللہ کہیں۔یعنی التجا کا وقت ہو تو التجا کریں۔اس سلسلے میں ایک حدیث تو مطلق جواب کے بارے میں بھی مروی ہے۔صحیح مسلم اور سنن نسائی میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ سے مروی حدیث میں ہے: ((اِذَا مَرَّ بِاٰیَۃٍ فِیْہَا تَسْبِیْحٌ سَبَّحَ،وَاِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَاَلَ،وَاِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ۔۔۔الخ))[1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ایسی آیت کو پڑھتے جس میں تسبیح کا مطالبہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح کرتے اور سوال والی آیت پڑھتے تو سوال کرتے اور تعوذ والی آیت پڑھتے تو اﷲ کی پناہ طلب کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ جواب دینا ہرشخص کے لیے مسنون و مستحب ہے،وہ نماز کے دوران میں قراء ت کر رہا ہو یا عام حالت میں مصروفِ تلاوت ہو۔نیز انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس میں امام و مقتدی اور منفرد سبھی شامل ہیں۔[2] جبکہ مقتدی کا معاملہ محل نظر ہے جس کی کچھ تفصیل ہم تھوڑا آگے چل کر ذکر کریں گے۔ان شاء اللہ۔البتہ امام اور منفرد کے لیے یہ حکم یکساں ہے۔اسی طرح اس معاملے میں فرض اور نفل کے مابین فرق کی بھی کوئی دلیل نہیں،بلکہ یہ ہر نماز میں مستحب ہے۔ بعض سورتوں کے اختتام پر جواب دینا: اس مطلق حکم والی حدیث کے علاوہ بعض دوسری احادیث میں بعض سورتوں کی کچھ مخصوص آیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے جن کا جواب دینا چاہیے۔ 1۔ چنانچہ اس سلسلے میں سنن ابو داود،بیہقی اور دیگر کتب میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سورۃ القیامہ کی آخری آیت{أَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقَادِر عَلیٰ أَنْ یُّحْیِیَ الْمَوْتیٰ﴾پڑھتے تو ’’سُبْحَانَکَ فَبَلٰی‘‘ کہتے اور جب سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت{سَبِّح اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾پڑھتے تو
Flag Counter