Maktaba Wahhabi

767 - 738
لیے اذکار وغیرہ کیے جاتے ہیں اور پھر دعا کی جاتی ہے اور جب تک دعا نہ ہو جائے تب تک مقتدی حضرات اپنے آپ کو امام کی اقتدا سے خارج نہیں سمجھتے۔یہاں(ان خلیجی ممالک اور سعودی عرب میں)معاملہ بالکل ہی اس کے برعکس ہے کہ کسی شاذ و نادر مسجد کے سوا عام طور پر مساجد میں فرض نمازوں کا سلام پھیرنے کے بعد اجتماعی شکل میں دعا کرنے کا کوئی رواج نہیں،جس سے ہمارے لوگوں کو تشویش ہوتی ہے۔لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اذکار و وظائف اور دعاؤں کے ضمن میں اس موضوع کے بارے میں کچھ عرض کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ کسی ملک میں کسی کام کا رواج نہ ہونا کوئی شرعی سند نہیں ہوتا کہ وہ کام ہی جائز نہیں ہوگا۔بعینہٖ کسی ملک میں کسی کام کا مروّج ہونا بھی شرعی طور پر اس بات کا ثبوت نہیں بن سکتا کہ وہ کام یقینا مشروع ہی ہوگا،بلکہ احکامِ شریعت کی اصل بنیاد اور معیار کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پہلا انداز: جہاں تک فرضوں کے بعد دعا کرنے کا تعلق ہے،اس کی کئی صورتیں ہیں۔مثلاً انفرادی طور پر اذکار و وظائف سے فارغ ہو کر بغیر ہاتھ اٹھائے ہی اپنی دنیا و آخرت کے لیے دعائیں کرنا۔اس میں تو کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔جو جتنی چاہے اور جب تک چاہے دعائیں کرے۔ دوسرا انداز: دوسری صورت یہ ہے کہ اذکار سے فارغ ہو کر کبھی کبھار دونوں ہاتھو ں کو اٹھا کر دعا مانگی جائے۔اگر یہ عمل انفرادی طور پر ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے جواز پر امام سیوطی رحمہ اللہ نے مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ’’فضّ الوعاء في أحادیث رفع الیدین في الدُّعاء‘‘ رکھا ہے۔[1] شارح مشکوٰۃ علامہ عبیداللہ رحمانی لکھتے ہیں کہ جن روایات میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ذکر آیا ہے،اگرچہ ان میں سے ہر ایک پر کلام کیا گیا ہے،مگر وہ کلام ایسا نہیں کہ ان احادیث پر موضوع یعنی من گھڑت ہونے کا حکم لگایا جا سکے۔اس لیے ان(روایات)سے امام کے لیے فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا جواز یا استحباب ثابت ہونے میں کوئی شبہہ نہیں۔چونکہ کسی روایت سے اس
Flag Counter