Maktaba Wahhabi

207 - 738
بخاری رحمہ اللہ نے شاید یہ حکمت محسوس کر لی تھی۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بخاری شریف میں ’’بَابُ وَضْعِ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی‘‘ یعنی دائیں ہاتھ کو بائیں پر باندھنے کے باب کے ساتھ ہی دوسرا ’’بَابُ الْخُشُوْعِ فِی الصَّلَاۃِ‘‘ قائم فرمایا،تا کہ جو بات یہاں اشارتاً موجود ہے،اسے صراحتاً ثابت کر دیا جائے،کیونکہ وہ تو نماز میں مطلوب ہے۔ 3۔ بعض اہل علم نے تو ایک بڑی لطیف بات کہی ہے کہ نیت کا مقام دل ہے اور یہ ایک معروف بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی چیز کی حفاظت کرتا ہے تو اس پر اپنے ہاتھ رکھ لیتا ہے۔یوں ہاتھ باندھنے میں نماز سے حاصل ہونے والے نورِ ایمان کی حفاظت ہے،لہٰذا سینے پر ہاتھ باندھنا ہی اولیٰ ہے۔[1] ہاتھ باندھنے کے بارے میں چند وضاحتیں: یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ باندھنے کے بارے میں نمازیوں کی چند کوتاہیوں اور اصل صورتِ حال کی وضاحت بھی کرتے جائیں: 1۔ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہاتھ باندھنے کی جو مختلف شکلیں ہیں،ان میں سے ایک تو وہی ہے جو مذکورہ بالا حدیثوں میں وارد ہوئی ہے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ لیں،جیسا کہ ’’وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی‘‘ کے الفاظ سے پتا چلتا ہے اور ’’وَضْع‘‘ کا معنی ’’رکھنا‘‘ ہے کہ ایک ہاتھ کو دسرے پر رکھ دیں لیکن پکڑیں نہیں۔ 2۔ ہاتھ باندھنے کی دوسری شکل وہ ہے جو حضرت سہل بن سعد رضی اللہ سے مروی حدیث میں ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھا جائے،جیسا کہ اس حدیث کے الفاظ ’’اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْرٰی‘‘ سے پتا چلتا ہے۔پہلے طریقے اور اس طریقے کے مابین فرق یہ ہے کہ پہلے میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا ذکر آیا ہے اور دوسرے میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بجائے بائیں بازو کی کلائی پر رکھنا مذکور ہے۔اسی کا ذکر عقبہ بن ابوعائشہ کے اثر میں بھی گزرا ہے۔ 3۔ ہاتھ باندھنے کی تیسری شکل ایک اور حدیث میں آئی ہے جو حضرت وائل بن حجر رضی اللہ سے مروی
Flag Counter