Maktaba Wahhabi

458 - 738
اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اس حدیث کا فیصلہ کن ثابت ہونا تو درکنار،یہ تو سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔ ایک اثر فاروقی: 6۔ اسی سلسلے میں ایک اثر فاروقی مصنف عبدالرزاق اور معانی الآثار طحاوی میں مروی ہے،جس میں اسود اور علقمہ کہتے ہیں: ((حَفِظْنَا عَنْ عُمَرَ فِیْ صَلَاتِہٖ اَنَّہٗ خَرَّ بَعْدَ رُکُوْعِہٖ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ کَمَا یَخِرُّ الْبَعِیْرُ،وَضَعَ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ))[1] ’’ہمیں حضرت عمر رضی اللہ کی نماز سے یہ یاد ہے کہ وہ رکوع کے بعد گھٹنوں کے بل بیٹھتے تھے جیسے اونٹ بیٹھتا ہے۔وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھتے تھے۔‘‘ امام طحاوی نے اس اثر کی سند کو صحیح قرار دیا ہے اور شیخ البانی نے ’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ‘‘ میں ان کی یہ تصحیح نقل کی ہے اور اس پر کوئی تعاقب نہیں کیا،بلکہ اس کے ایک راوی اعمش کی تحدیث کی صراحت کر کے ان کی تائید و موافقت کی ہے۔[2] لیکن چونکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ پر موقوف ایک اثر ہے اور دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایک حدیث ہے،لہٰذا یہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا کہ گھٹنوں والی حدیث کو ترجیح دی جاسکے۔اس سلسلے میں پائے جانے والے دوسرے آثار کی نسبت بھی یہی جواب ہے کہ جب ایک طرف ایک حدیث صحیح و ثابت موجود ہو تو پھر دوسری طرف چاہے کتنے بھی صحابہ کے آثار کیوں نہ آجائیں،فلا أثر للآثار۔۔۔مثلاً: 7۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے: ((اِنَّہٗ کَانَ یَضَعُ رُکْبَتَیْہِ اِذَا سَجَدَ قَبْلَ یَدَیْہِ))[3] ’’سجدہ کرتے وقت وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے لگاتے تھے۔‘‘ جبکہ یہ بھی ضعیف ہے۔اس کا ایک راوی ابن ابی لیلیٰ ردیٔ الحفظ ہے اور نافع سے
Flag Counter