Maktaba Wahhabi

213 - 738
میں لکھا ہے:’’پھر امام ابو داود نے طاؤس رحمہ اللہ سے روایت بیان کی ہے کہ انھوں نے کہا:’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے اور پھر اُن کو سینے پر باندھ لیتے تھے،درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہوتے تھے۔‘‘[1] یہ حدیث اگرچہ مرسل ہے،لیکن مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔پس یہ حدیث دلیل کے لیے کافی ہے اور کیسے کافی نہ ہو،جبکہ صحیح ابن خزیمہ میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ سے یہ بات آ چکی ہے کہ انھوں نے کہا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر سینے پر رکھا۔‘‘ مسند احمد میں حضرت ہلب رضی اللہ نے کہا ہے: ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے۔‘‘ ’’المختصر جب ثابت ہو چکا ہے کہ ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے،چھوڑنا سنت نہیں،تو یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اس کا مقام سینہ نہ ہے کہ کوئی اور جگہ۔واللّٰه اعلم۔‘‘[2] اس سے آگے حافظ عبدالمنان نورپوری صاحب نے ’’ایک عبرت آموز واقعہ‘‘ کے تحت شیخ ابوالحسن سندھی رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے: ایک عبرت آموز واقعہ: شیخ ابوالحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ سینے پر ہاتھ باندھنے والی سنت و حدیث پر عمل کیا کرتے تھے۔اس سلسلے میں انھیں قید و بند کی صعوبت میں بھی مبتلا ہونا پڑا،جسے انھوں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔چنانچہ محمد عابد سندھی اپنی کتاب ’’تراجم الشیوخ‘‘ میں شیخ ابوالحسن سندھی کے حالات میں لکھتے ہیں: شیخ صاحب حدیث پر عمل کرنے والے تھے،کسی مذہب کی آڑ لے کر حدیث کو نہ چھوڑتے تھے۔رکوع سے پہلے،رکوع سے اٹھ کر اور دو رکعتوں سے اٹھ کر رفع یدین کیا کرتے تھے اور اپنے ہاتھ سینے پر باندھا کرتے تھے۔ان کے زمانے میں حنفی المذہب شیخ ابو الطیب سندھی بھی تھے،جو اپنے
Flag Counter