Maktaba Wahhabi

164 - 738
اس سے معلوم ہوا کہ نماز سے پہلے مروّجہ لمبی چوڑی نیت کو مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے بھی برا فعل قرار دیا ہے اور جس مختصر نیت کا مشورہ دیا ہے،وہ بلا دلیل ہے۔ 15۔شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ: تمام مکاتبِ فکر کے مشترکہ و معروف بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں مروّجہ نیت کا کوئی تذکرہ نہیں کیا،جس سے یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی صرف دل کے ارادے ہی کو نیت سمجھتے تھے۔جس کے لیے ان کی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ کا اردو ترجمہ طبع نفیس اکیڈمی کراچی(1/ 21)دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک وضاحت: یہاں اس بات کی وضاحت کرتے چلیں کہ بعض متاخرین فقہا نے جب دیکھا کہ زبان سے نیت کرنے کی تائید میں نہ قرآن و سنت سے کوئی دلیل موجود ہے اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا تعامل ہے،بلکہ ائمہ دین میں سے کسی کا فتویٰ بھی ان کے پاس نہیں تھا تو انھوں نے اسے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کہہ کر اس کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔جبکہ محققین علماء کرام کے نزدیک بدعت کی یہ تقسیم ہی صحیح نہیں کہ کسی کو حسنہ اور کسی کو سیئہ کہا جائے کیوں کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرح کی بدعت گمراہی ہے۔ 1۔ حضرت جابر رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَمَّا بَعْدُ:فَاِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ،وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَشَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا‘ وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ))[1] ’’حمد و ثنا کے بعد واضح ہو کہ بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت و طریقہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے،بدترین اُمور بدعات و محدثات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ یہی روایت سنن نسائی میں بھی مروی ہے جس میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں: ((وَکُلَّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ))[2] ’’اور ہر گمراہی کا انجام نارِ جہنم ہے۔‘‘ 2۔ ایسے ہی حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں خطبہ
Flag Counter