Maktaba Wahhabi

107 - 738
ہے جس میں رائے کا دخل ہو۔[1] اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے سامنے سے بکری کو بھی نہیں گزرنے دیا تھا،حالانکہ جانور کے گناہ گار ہونے والی کوئی بات ہی نہیں ہے،چنانچہ صحیح ابن حبان و ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ فَمَرَّتْ شَاۃٌ بَیْنَ یَدَیْہِ فَسَاعَاہَا اِلَی الْقِبْلَۃِ حَتّٰی اَلْصَقَ بَطْنَہٗ بِالْقِبْلَۃِ))[2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے گزرنا چاہا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبلہ کی جانب اتنا دبایا کہ اس کا پیٹ قبلہ(والی دیوار)سے چمٹا دیا۔(اور اسے اپنے پیچھے سے گزرنے پر مجبور کر دیا)۔‘‘ اس حدیث سے بھی واضح طورپر پتا چلتا ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کو روکنے میں نمازی کی مصلحت کارفرما ہے،نہ کہ گزرنے والے کی۔نیز اس حدیث سے دوسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ اس فعل کو ’’عملِ کثیر‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا جس سے نماز کے فاسد ہونے کا امکان ہو۔اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قطعاً ایسا نہ کرتے۔آگے سے گزرنے والے کو روکنے اور سُترہ رکھنے کی حکمت بھی یہی بیان کی گئی ہے کہ کوئی نماز نہ توڑنے پائے۔چنانچہ حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ اِلٰی سُتْرَۃٍ فَلْیَدْنُ مِنْہَا،لَا یَقْطَعُ الشَّیْطَانُ عَلَیْہِ صَلَاتَہٗ))[3] ’’تم میں سے جب کوئی شخص سُترہ رکھ کر نماز پڑھنے لگے تو قریب ہو کر کھڑا ہو،تاکہ شیطان(صفت انسان)اس کی نماز نہ توڑنے پائے۔‘‘ نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ: نمازی اپنے آپ سے کتنی دور سترہ رکھے؟اس سلسلے میں دوطرح کی احادیث ملتی ہیں۔ایک وہ ہیں جن میں مطلق سترے کے قریب ہو کر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور بعض ایسی ہیں جن میں
Flag Counter