Maktaba Wahhabi

273 - 738
13۔ مولانا سید احمد حسن دہلوی ’’احسن التفاسیر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’نماز میں تکبیر اور سورۃ الفاتحہ کے مابین پکار کر ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ نہ پڑھنے کی حدیثیں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہیں۔‘‘[1] 14۔ مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی فرماتے ہیں: ’’اس سے معلوم ہوا اکثریت و اولویت سِراً ہی کو ہے۔‘‘[2] ملاحظہ: ’’زاد المعاد‘‘ کے محقق نے کچھ سخت یا جانب دارانہ قسم کا رویہ اپناتے ہوئے لکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف عدمِ جہر ہی ثابت ہے،یعنی بلند آواز سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنا ثابت ہی نہیں۔[3] حالانکہ علی الاطلاق یہ بات صحیح نہیں،کیونکہ تمام نہیں تو اکثر اہلِ علم نے یہ لکھا ہے کہ عدمِ جہر اور جہر دونوں کا پتا چلتا ہے۔البتہ جہر کبھی کبھار برائے تعلیم اور عدم جہر اکثر معمول تھا۔جیسا کہ علامہ ابن قیم،امیر صنعانی اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا کلام ہم نے ذکر کیا ہے اور دونوں طرح کی احادیث میں یہی جمع و تطبیق صحیح ہے،تاکہ کسی حدیث کو بلاوجہ منسوخ قرار دینے کی نوبت ہی نہ آئے۔ خلاصۂ بحث: اس ساری تفصیل کا مختصر انداز سے دو حرفی خلاصہ یہ ہے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کو غالب اوقات میں بلا آواز ہی پڑھا جائے اور کبھی کبھار بلند آواز سے بھی پڑھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ سببِ اختلاف: جہر اور عدمِ جہر میں پائے جانے والے اختلاف ِرائے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ سمجھتے تھے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ سورۃ الفاتحہ کا حصہ ہے اور اسے سری نمازوں میں آہستہ اورجہری قراء ت والی نمازوں میں بلند آواز سے اُسی طرح پڑھنا ضروری ہے جیسے سورت فاتحہ کو۔
Flag Counter