Maktaba Wahhabi

254 - 738
تفسیر و تشریح: ’’مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ‘‘ کے الفاظ بعض احادیث میں تقدیم و تاخیر سے وارد ہوئے ہیں،یعنی کسی میں کوئی لفظ پہلے ہے اور کسی میں کوئی دوسرا لفظ بعد میں مروی ہے۔بہرحال ان الفاظ کی تفسیر بھی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ثابت ہے۔چنانچہ تعوذ کے دوسرے صیغے کی دوسری دلیل پرمشتمل حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ سے مروی حدیث میں بھی یہ معنی گزرا ہے،لیکن سنن ابو داود اور بعض دیگر کتب میں اس سند کے ایک راوی عمرو نے ان الفاظ کی تفسیر یوں بیان کی ہے: ’’نَفْخِہِ:الْکِبْرُ‘‘ یعنی شیطان کے ’’نفخ‘‘ سے مراد اس کا انسان کو تکبر میں مبتلا کرنا ہے۔ ’’وَہَمْزِہِ:الْمُوْتَۃُ‘‘ اس کے ’’ہَمْز‘‘ سے مراد مرگی اور جنون جیسی کیفیت ہے،جو بنی آدم پر طاری ہو جاتی ہے ’’وَنَفْثِہِ:الشِّعْرُ‘‘[1] اس کے ’’نفث‘‘ سے مراد شعر ہے،کیوں کہ وہ مذموم اقسام کے شعر کہنے،دوسروں کی بلاوجہ ہجو کرنے اور مدح پر مشتمل غلو آمیز الفاظ بولنے پر اکساتا ہے۔ان مذموم قسم کے اشعار کو اس لیے مراد لیا گیا ہے تا کہ اچھے شعر اس سے مستثنا ہو جائیں،کیونکہ اچھے اشعار کہنے میں کوئی حرج نہیں،بلکہ حضرت ابن مسعود،حضرت عمرو بن عوف،حضرت ابوبکرہ،حضرت ابوہریرہ،اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ،حضرت حسان بن ثابت اور خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً))[2] ’’بعض شعر حکمت و دانائی کی باتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔‘‘ غرض کہ راویِ حدیث عمرو نے ’’مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ‘‘ کی جو تفسیر بیان کی ہے،یہ تفسیر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ سے مروی حدیث صحیح میں بھی وارد ہوئی ہے۔[3]حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تک
Flag Counter