Maktaba Wahhabi

310 - 738
’’دواد‘‘ کر دیا اور ایسی کامیابی حاصل کی کہ ایک جہان کو اپنا مسخر اور گرویدہ بنا لیا۔ کوئی یہ تحقیق نہیں کرتا کہ دواد پڑھنے سے نماز صحیح ہوتی ہے یا فاسد؟قطع نظر ان سب باتوں کے اگر لفظ دواد ہی صحیح ہے تو پھر ہر جگہ اس کو دواد ہی کیوں نہیں بولتے،مثلاً فضل کو فدل،غضب کو غدب،ضرب کو درب،مرض کو مرد کہنا چاہیے۔اگر کسی کی بہو بیٹی یا ماں بہن کو کوئی مرض لاحق ہو گیا ہو اور وہ اس کو علاج کے لیے کسی حکیم و طبیب کے پاس لے جائے تو کیا یوں کہے گا کہ حکیم جی میری ماں بہن کو ’’مرد‘‘ لاحق ہو گیا ہے؟وہاں ’’ض‘‘ کو ’’دواد‘‘ نہیں بولے گا اور قراء ت ِقرآن میں ’’دواد‘‘ پڑھے گا!ایں چہ بوالعجبی است؟یا قرض کو قرد اور ارض کو ارد،بعض کو بعد،عرضی کو عردی،ہضم کو ہدم،مریض کو مرید،حضور کو حدود،حضرت کو حدرت،حیض کو حید،ضلالت کو دلالت،رمضان کو رمدان وغیرہ وغیرہ کیوں نہیں کہتے؟کیا صرف قرآن ہی میں تبدیل و تحریف کرنی تھی؟ بات یہ ہے کہ شیطان نے قرآن مجید میں تحریف لفظی کرانی تھی۔دیگر الفاظ اور روز مرہ کی بول چال میں حرف بدلنے میں کوئی شرعی وعید نہیں تھی،اس لیے وہ اپنا کام کر گیا،حالانکہ ان جملہ امثلہ کے مادوں کے مختلف اوزان کے صیغے قرآن مجید میں موجود ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ خارج از قرآن تو جملہ الفاظ صحیح بولے جائیں،یعنی ض کو ض ہی بولا جائے اور قرآن مجید میں آ کر ض کو دال مہملہ سے بدل دیا جائے؟ کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ اس کو کس اصول اور قاعدے کی بنا پر دال سے بدلا جاتا ہے،جبکہ یہ دال کے قریب المخرج ہے نہ اس کے مشابہ و مماثل اور نہ کسی معتبر کتاب میں اس کو دواد بتایا گیا ہے! خلاصہ کلام: یہ عقلاً و نقلاً ثابت ہو گیا کہ لفظ صحیح ضاد ہے نہ کہ دواد۔اور ضاد ہی سے نماز صحیح ہوتی ہے نہ کہ فاسد۔[1]
Flag Counter