Maktaba Wahhabi

629 - 738
میں لکھا ہے کہ ہمارے تینوں اصحاب،یعنی امام ابو حنیفہ،امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا یہی قول ہے اور وہ تینوں اشارے کے جواز پر متفق ہیں،کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے متعدد احادیث میں ثابت ہے۔[1] آگے موصوف نے اپنے بعض مفتیانِ کرام مثلاً صاحب الخلاصہ،بزازیہ کبریٰ،عقابیہ،غیاثیہ،عمدۃ المفتی اور ظہیریہ وغیرہ پر افسوس کا اظہارکیا ہے جنھوں نے اس کی مشروعیت کو نہیں مانا۔ کبار علماء احناف میں سے ملا علی قاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام مالک،شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم و علماء سلف میں انگلی سے اشارہ کرنے والی سنت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔اس طرح اہل سنت کے چاروں فقہی مکاتبِ فکر اور علماء حدیث کا تو اس سنت پر اتفاق ہے۔اب رہے ماوراء النہر،خراسان،عراق اور بلادِ ہند کے وہ لوگ جو تحقیق سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے،ملا علی قاری رحمہ اللہ کے بہ قول ایسے لوگوں کا اس سنت کو ترک کر دینا کوئی حجت نہیں ہے،حتیٰ کہ خلا صۂ کیدانی میں اس کے مولف نے اس سنت کو ’’محرماتِ نماز‘‘ میں شمار کر دیا تو ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس کی اس جسارت کو خطاے عظیم،جرم جسیم،قواعدِ اصول اور مراتبِ فروع سے جہالت قرار دینے کے بعد لکھا ہے کہ اگر اس کے کلام کی تاویل نہ کریں تو اس کا کفر واضح اور ارتداد صریح ہے۔مزید لکھتے ہیں کہ کیا کسی مومن کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ ایک سنت کو حرام کہے اور ایسے کام سے منع کرے جس پر عامۃ العلما پشت در پشت چلے آ رہے ہوں![2] اب ایسی سنت جس پر ائمہ اربعہ،متقدمین فقہاے مذاہب اربعہ اور تمام محدثین و علماء حدیث کا اتفاق ہے ایسی سنت سے نفرت کرنا،اسے اپنانے والوں سے نفرت کرنا اور لوگوں کو ان سے متنفر کرنے کی سعی کرنا کس طرح عقل مندی ہو سکتی ہے؟! لوہے سے بھی سخت اور شیطان کو رلا دینے والی چیز: اس سنت سے تو صرف شیطانِ لعین کو تکلیف ہوتی ہے،کسی مسلمان کو نہیں۔کیونکہ مسند احمد و
Flag Counter