Maktaba Wahhabi

581 - 738
مسند احمد اور سنن بیہقی میں مروی ہے۔[1] ایک چوتھی حدیث بھی انھی سے صحیحین،سنن اربعہ اور مسند احمد میں منقول ہے۔[2] وجہ استدلال: ان احادیث میں دورانِ نماز(قعدے میں)درود شریف پڑھنے کا حکم ہے۔قعدئہ اولیٰ یا ثانیہ کا کوئی فرق مذکور نہیں اور سورۃ الاحزاب کی آیت میں درود اور سلام دونوں کے پڑھنے کا حکم ہے۔اگر صرف تشہد ہی پڑھ کر اُٹھ کھڑے ہوں تو سلام بھیجنے پر تو عمل ہو گیا مگر درود بھیجنے پر عمل نہ ہوا۔پوری آیت پر عمل تبھی ہوگا،جب درود شریف بھی پڑھا جائے۔ دوسری دلیل: اس مذکورہ قرآنی آیت اور تفسیری احادیث کے علاوہ بعض دیگر احادیث سے بھی اس بات کا پتا چلتا ہے کہ پہلے قعدے میں بھی درود شریف پڑھنا چاہیے۔چنانچہ سنن نسائی،بیہقی اور صحیح ابی عوانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کا ذکر کرتے ہوئے اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت نماز میں صرف آٹھویں رکعت کے بعد قعدہ کرتے: ((فَیَدْعُو رَبَّہٗ وَیُصَلِّی عَلٰی نَبِیِّہٖ ثُمَّ یَنْہَضُ وَلَا یُسَلِّمُ))[3] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ربّ سے دعا کرتے،اس کے بعد نبی پر درود پڑھتے اور پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہ پھیرتے تھے۔‘‘ خلاصہ: اس آیت اور احادیث کی وجہ سے امام شافعی،امام نووی،الوزیر ابن ہبیرہ اور ابن رجب جیسے ائمہ و علما نے یہی رائے اپنائی ہے کہ قعدے میں درود شریف کی احادیث کثرت سے مروی ہیں اور ان میں پہلے اور دوسرے کی بھی کوئی تفریق نہیں،بلکہ وہ عام ہیں،لہٰذا وہ دونوں قعدوں ہی کو شامل ہیں۔ مدرسہ غزنویہ امرتسر کے شیخ الحدیث مولانا نیک محمد رحمہ اللہ،علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ،
Flag Counter