Maktaba Wahhabi

622 - 738
ایک طرف نکال دیا۔‘‘ دونوں پاؤں کو ایک(دائیں)طرف نکالنا اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ دائیں پاؤں کو بھی دائیں جانب کچھ بچھا سا دیا جائے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ کی تحقیق: اس سلسلے میں امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ اس بات پر علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تورّک کے وقت دائیں پاؤں کو کھڑے رکھنا سنت ہے،جس پر صحیح بخاری اور دیگر کتب کی احادیث شاہد ہیں،جبکہ صحیح مسلم میں حضرت ابن زبیر رضی اللہ والی اس حدیث سے دائیں پاؤں کو بچھانے کا پتا چلتا ہے۔یہ بات کچھ مشکل الفہم ہے۔پھر قاضی عیاض رحمہ اللہ کے حوالے سے فقیہ ابو محمد الخشنی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہاں بائیں پاؤں کو بچھانے کی بات ہے نہ کہ دائیں کو۔پھر قاضی عیاض نے اس قول کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بائیں پاؤں کو بچھانے کا الگ سے اس حدیث میں ذکر موجود ہے،لہٰذا یہ توجیہ تو صحیح نہیں،البتہ یہ کہناشاید صحیح ہو کہ حد یث میں الفاظ تو دائیں پاؤں کو بچھانے کے لیے ہی ہیں،لیکن اس کا معنی پوری طرح بچھا دینا نہیں،بلکہ دائیں پاؤں کو بالکل سیدھا کھڑا رکھنے کے بجائے تھوڑا سا دائیں طرف نکال دینا ہو۔کیونکہ غالب احوال میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں پاؤں کو سیدھا کھڑا رکھتے اور انگلیوں کو قبلہ رو کھلا رکھتے،لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے کے بجائے دائیں پاؤں کو تھوڑا سا دائیں جانب نکال دیا ہو۔ امام نووی نے قاضی عیاض کی اس تاویل و تشریح پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہی مختار قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کرنااس بات کے بیانِ جواز کے لیے بھی ممکن ہے کہ دائیں پاؤں کی انگلیوں کو اگرچہ زمین پر کھڑے رکھنا ہی مستحب ہے،لیکن کبھی اسے ترک کر کے انھیں دائیں طرف نکال لینا بھی جائز ہے۔اس تاویل کے نظائر بھی کثرت سے ہیں،خصوصاً احکامِ نماز میں۔صحیح مسلم کے تمام نسخوں میں وارد ایک صحیح و ثابت حدیث میں دائیں پاؤں کو بچھانے کے جو الفاظ آئے ہیں،انھیں غلط ثابت کرنے یا ماننے سے بدرجہا بہتر ہے کہ اس تاویل کو اپنایا جائے۔[1] دائیں پاؤں کو کھڑا رکھنے یا دائیں طرف کچھ نکال دینے میں جو انداز بھی اختیار کر لیا جائے،
Flag Counter