Maktaba Wahhabi

424 - 738
لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہنے کی ممانعت صراحتاً وارد نہیں ہوئی،بلکہ اس حدیث میں تو صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ مقتدی ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ‘‘ اُس وقت کہے جب امام ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہہ لے۔امام کے یہ کہنے سے پہلے نہیں۔موصوف نے اس مسئلے کو امام کے اور مقتدی کے آمین کہنے کے مسئلے کی نظیر اور اس کے قریب قریب کا مسئلہ قرار دیا ہے،جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود و نسائی،مسند احمد و ابی عوانہ اور موطا امام مالک کی حدیث میں وارد ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((اِذَا قَالَ الْاِمَامُ:غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ،فَقُوْلُوْا:آمِیْنَ))[1] ’’جب امام ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ‘‘ کہے تو تم آمین کہو۔‘‘ اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام آمین نہ کہے اور نہ اس حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ وہ بھی آمین کہے۔(اس کے باوجود امام و مقتدی سب ہی آمین کہتے ہیں)بالکل اسی طرح زیر بحث حدیث میں یہ نہیں آیا کہ امام بھی ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ کہے تو آمین کی طرح ہی امام کا بھی ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ کہنا کئی دوسرے صحیح دلائل سے مستفاد ہوتا ہے۔[2] غرض کہ جس طرح واضح صراحت نہ ہونے کے باوجود امام آمین کہتا ہے اور ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ بھی،اسی طرح واضح صراحت نہ ہونے کے باوجود بعض دوسرے دلائل کی بنا پر مقتدی کو بھی ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہنا چاہیے۔کبار تابعین میں سے امام عطا و ابن سیرین وغیرہما بھی مقتدی کے لیے تسمیع و تحمید دونوں ہی کہنے کے قائل تھے اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے،لیکن حافظ ابن حجر کے بہ قول اس مسئلے میں کوئی حدیث صحیح و ثابت نہیں ہے۔[3] 2۔امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ: ایسے ہی امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جو اُن کے مجموعۂ فتاویٰ ’’الحاوی للفتاویٰ‘‘ میں بھی چھپ چکا ہے۔اس میں موصوف نے کئی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ جس طرح امام کو آمین اور ’’رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ‘‘ کہنا چاہیے،بعینہٖ اسی طرح مقتدی
Flag Counter