Maktaba Wahhabi

412 - 738
مصافحہ کرتے وقت جھکنا جائز نہیں ہے،بلکہ معمول کے انداز سے کھڑے کھڑے سلام و مصافحہ کرنا عین ادب اور اسلامی تعلیمات کے موافق ہے۔ تسبیحات کی تعداد: رکوع و سجدے میں انہی تسبیحات کا ذکر سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،دارقطنی،بیہقی،شرح السنہ بغوی،مسند شافعی و طیالسی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے مروی حدیث میں بھی آیا ہے جو حضرت جبیر بن مطعم،حذیفہ،ابوبکرہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔اس حدیث میں ان تسبیحات کا کم از کم تین مرتبہ پڑھنا وارد ہوا ہے۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ جیسے بعض کبار اہلِ علم نے تین مرتبہ کی قید پر اعتراض کیا ہے،جس کی وجہ یہ ہوگی کہ تین والی حدیث متکلم فیہ ہے،جبکہ ان صحابہ کی مرویات کے مجموعی مفاد کو ثابت مانتے ہوئے نیز شواہد کی بنا پر بعض دیگر کبار محدثین نے ان کی تردید کی ہے۔[1] علامہ ماوردی سے امام شوکانی نے نقل کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گیارہ یا نو یا پانچ تسبیحات ہیں،لیکن اگر صرف ایک ہی مرتبہ کہہ لے تو تسبیح ہو گئی۔امام ترمذی نے ابن المبارک،ثوری اور اسحاق بن راہویہ(رحمہم اللہ)سے نقل کیا ہے کہ امام کو پانچ مرتبہ تسبیح کہنی چاہیے۔جبکہ مستحب و افضل کی ان قیود کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔سنن ابو داود و نسائی،بیہقی اور مسند احمد کی جس روایت میں دس تسبیحات کا ذکر آیا ہے،اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔[2] لہٰذا جتنی زیادہ تسبیحات ممکن ہوں کہی جائیں،البتہ امام ترمذی نے کم از کم کی تعداد تین ہونے ہی کو اہل علم کا عمل قرار دیا ہے۔[3] طاق ووتر یا شُفع و جُفت: اب رہی یہ بات کہ ان تسبیحات کا طاق و وتر رہنا ہی ضروری ہے کہ تین،پانچ،سات،نو ہوں
Flag Counter