Maktaba Wahhabi

483 - 738
اور فتح الباری میں حافظ ابن حجر کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث کسی حد تک قابل استدلال ہے۔علامہ احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے اور شیخ شعیب نے اسے قوی قرار دیا ہے۔جب سنت ِالٰہی{لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾اور اسی موضوع کی احادیث کو بھی ساتھ ملایا جائے تو بوڑھے،بیمار،کمزور اور ضرورت مند کے لیے قدرے گنجایش نکل آتی ہے،ورنہ محض اس حدیث میں دوسری صحیح و قوی احادیث کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں،جن میں بازوؤں اور کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر اور بازوؤں کو پہلوؤں سے اور کہنیوں کو گھٹنوں سے الگ رکھنے کا حکم آیا ہے۔یہاں تک پیشانی،ناک،کہنیوں،بازوؤں،ہاتھوں اور ہاتھوں کی انگلیوں کے بارے میں تفصیل تھی کہ بہ وقتِ سجدہ ان سب کو کیسے ہونا چاہیے۔ پیٹ کو رانوں سے اٹھا کر اور رانوں کو الگ الگ رکھنا: حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ جب نمازی سجدہ کرے تو وہ اپنا پیٹ اپنی رانوں سے اٹھا کر رکھے۔چنانچہ امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان یوں ذکر فرمایا ہے: ’’باب ترک التمدد في السجود واستحباب رفع البطن عن الفخذین‘‘[1] ’’سجدوں میں لمبے ہونے کے ترک کرنے اور پیٹ کو رانوں پر نہ ڈالنے کے مستحب ہونے کا بیان۔‘‘ پھر اس باب کے تحت انھوں نے وہ حدیث روایت کی ہے،جو سنن نسائی کے ’’باب صفۃ السجود‘‘ میں بھی منقول ہے،جس میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ فرماتے ہیں: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ إِذَا صَلّٰی جَحّٰی))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو بازوؤں کو پہلوؤں اور پیٹ کو رانوں سے الگ رکھتے تھے۔‘‘ ’’جَحّٰی‘‘ کا معنی ہے نماز میں بازوؤں کو پہلوؤں سے اور پیٹ کو رانوں سے الگ رکھنا۔[3] اس کی تائید حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ والی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ بیان فرماتے ہیں:
Flag Counter