Maktaba Wahhabi

656 - 738
جواب: یہ روایت مضطرب الاسناد اور مضطرب المتن ہونے کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل استدلال ہے۔اور اس کے اسبابِ ضعف کی تفصیل علامہ ابن قیم نے بیان کر دی ہے۔[1] تیسری حدیث: حضرت علی رضی اللہ سے مروی ہے: ((اِذَا جَلَسَ مِقْدَارَ التَّشَہُّدِ ثُمَّ اَحْدَثَ فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُہٗ))[2] ’’اگر تشہد کے برابر بیٹھ لے اور پھر وضو ٹوٹ گیا تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔‘‘ جواب: یہ حدیث بھی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دی ہے،لہٰذا اسے دلیل بنانا صحیح نہیں،جبکہ حضرت علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس روایت کے برعکس بھی روایات ملتی ہیں۔[3] دیگر دلائل: اسی طرح کی بعض دیگر روایات بھی پیش کی جاتی ہیں،جن میں سے دو ایک میں درود شریف کا صرف ذکر نہیں آیا،جبکہ معروف ہے کہ عدمِ ذکر عدمِ وجود کا ثبوت نہیں ہوتا۔بعض روایات جانبین کے یہاں مشترک ہیں۔ جہاں تک اس موضوع پر بعض اہلِ علم ’’اجماع‘‘ کا تذکرہ کر دیتے ہیں تو اس کا اندازہ ان ناموں ہی سے ہو جاتا ہے،جو قائلینِ وجوب کے تحت ذکر کیے گئے ہیں۔غرض کہ امام شافعی رحمہ اللہ سے پہلے اور امام شافعی کے بعد کبھی اس مسئلہ عدم وجوب پر اجماع ہر گز نہیں رہا۔کچھ ایسا معاملہ ’’تعامل سلف‘‘ کا بھی ہے جو قاضی عیاض نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے،حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے،کیونکہ ازمنہ ماضیہ سے لے کر آج تک نماز کے تشہد میں درود شریف پڑھنا معمول بہ چلا آ رہا ہے۔[4]
Flag Counter