Maktaba Wahhabi

329 - 738
کہو اور پھر رکوع کرو۔‘‘ شارحینِ حدیث اور کبار اہلِ علم نے ان احادیث سے جو مفہوم اخذ کیا ہے،وہ مختصراً یہ ہے کہ جسے کچھ قرآن یاد ہو تو اسے چاہیے کہ سورت فاتحہ ضرور پڑھے کہ یہ متعین ہے اور ساتھ ہی کوئی سورت بھی ملائے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔اگر کسی کو قرآن کے بعض مقامات یاد ہوں،لیکن سردست سورت فاتحہ یاد نہ ہو تو فی الحال وہ جو آسان ہو وہی مقام پڑھ لے اور سورت فاتحہ یاد کرتا رہے،اور اگر وہ مزید کچھ یاد کرنے سے عاجز ہو تو اس کے لیے عذر کی بنا پر حفظ شدہ حصے کو پڑھتے رہنے کی گنجایش ہے،جو ظاہر ہے کہ عمر رسیدہ بوڑھوں کے لیے ہے۔اگر قرآن میں سے کچھ بھی یاد نہیں تو نماز کا وقت ہوتے ہی وہ نماز پڑھے گا اور اس کے لیے سرِدست رخصت ہے کہ وہ ان احادیث میں وارد ذکر کرتا رہے،خاموشی نہ اختیار کیے رہے۔اس کی تفصیل شرح السنہ بغوی(3/ 89)المغنی لابن قدامۃ(2/ 159،160 طبع جدید)معالم السنن خطابی(1/ 1/ 179 طبع دارالکتب العلمیہ بیروت)اور عون المعبود شرح ابی داود(3/ 62،طبع مدنی)میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ عاجزی و مجبوری کی حالت میں ہے،جیسے امام خطابی فرماتے ہیں کہ طبعی طور پر وہ کچھ حفظ کر سکنے سے عاجز ہو یا حافظہ خراب ہونے کی وجہ سے کچھ یاد نہ کر سکتا ہو یا زبان میں کوئی نقص ہو تو وہ مجبور ہے،اسے ذکر و اذکار کی رخصت ہے۔لیکن اگر ایسی کوئی شرعی مجبور ی و عذر نہ ہو تو وہ وقتی طور پر سابقہ تفصیل کے مطابق کام چلا لے،لیکن ساتھ ہی سورت فاتحہ اور بعض دوسری یا کم از کم کوئی ایک اور سورت یاد کرنے میں لگ جائے۔یہ حکم جس طرح نئے راہِ ہدایت پر آ کر نماز شروع کرنے والے پیر و جوان مسلمان کے لیے ہے،اسی طرح نئے نئے اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل کرنے والے نو مسلم کے لیے بھی ہے۔ کسی سورت یا اس کے کسی حصے کی قراء ت والی رکعتیں: قراء تِ سورت فاتحہ کا تعلق تو نماز کی ہر رکعت سے ہے اور نمازی اکیلا ہو یا مقتدی و امام؛ اس میں کوئی فرق نہیں،جبکہ فاتحہ کے ساتھ دوسری کوئی سورت یا کسی سورت کا حصہ نماز فجر اور جمعہ کی دونوں رکعتوں میں،سنن و نوافل کی بھی تمام رکعتوں میں،دو ہوں یا چار،نماز وترکی تینوں رکعتوں میں،نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی صرف پہلی دو دو رکعتوں میں سنت ہے۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور
Flag Counter