Maktaba Wahhabi

349 - 738
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں: ’’۔۔۔وإِنَّ البعید الذي لا یسمع،یقرأ بالفاتحۃ وما زاد‘‘[1] ’’یہ بھی اس بات کی مؤید ہے کہ جو نمازی زیادہ دُور کھڑا ہے اور امام کی قراء ت نہیں سن پا رہا،وہ فاتحہ اور کچھ مزید بھی پڑھ لے۔‘‘ یاد رہے کہ سورت فاتحہ کے بعد والی قراء ت واجب و ضروری نہیں،محض جائز اور خیالات و وساوس سے بچنے کی ایک مناسب تدبیر ہے۔یہ صرف سری قراء ت والی نمازوں میں ہے۔جہری نماز میں اس مقتدی کے لیے بھی یہی حکم ہے جو امام سے اتنا دور ہو کہ وہ امام کی قراء ت نہ سن پا رہا ہو۔یہ جمہور کا مذہب ہے۔ نمازِ مغرب: نماز مغرب میں مختلف سورتوں اور آیات کی قراء ت کرنے کے بارے میں بھی متعدد احادیث ثابت ہیں۔ 1۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ اُمّ الفضل بنت الحارث نے مجھے سورۃ المرسلات{وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا﴾پڑھتے سنا تو کہنے لگیں: ((یَا بُنَیَّ!وَاللّٰہِ لَقَدْ ذَکَرْتَنِیْ بِقِرَائَ تِکَ ہٰذِہِ السُّوْرَۃِ اَنَّہَا لَآخِرُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقْرَأُ بِہَا فِی الْمَغْرِبِ))[2] ’’اے میرے بیٹے!تم نے یہ سورۃ المرسلات پڑھ کر مجھے یاد دلا دیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے آخر میں مَیں نے نمازِ مغرب میں اس کی تلاوت سنی تھی۔‘‘ اسی حدیث میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ یہ نماز مغرب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ آخری نماز تھی جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کروائی اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جماعت نہیں کروائی،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے۔ 2۔ ایسے ہی صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ بیان
Flag Counter