Maktaba Wahhabi

620 - 738
علامہ عبدالحی لکھنوی کا فیصلہ: اس سلسلے میں کبار علماء احناف میں سے علامہ عبدالحی لکھنوی کا منصفانہ فیصلہ سنتے جائیے۔چنانچہ وہ ’’التعلیق المُمجّد علیٰ موطأ الإمام محمد‘‘ میں امام طحاوی رحمہ اللہ کے حضرت ابو حمید رضی اللہ والی حدیثِ تورّک کو ضعیف کہنے کا رد کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قاسم بن قطلوبغا نے اپنے رسالہ ’’الأسوس في کیفیۃ الجلوس‘‘ میں لکھا ہے کہ حنفیہ کے مسلکِ افتراش کا ثبوت کئی احادیث میں ہے۔پھر آگے انھوں نے اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث،اسی طرح سنن سعید بن منصور و طحاوی میں مروی حدیثِ وائل رضی اللہ،ابو داود و مسند احمد میں مروی اچھی طرح سے نماز نہ پڑھنے والے اعرابی کے واقعے والی حدیث اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث(جو قاسم نے اپنے رسالے میں نقل کی ہیں اور ہم بھی ان میں سے بعض ذکر کر چکے ہیں)انھیں نقل کرنے کے بعد علامہ لکھنوی لکھتے ہیں: ’’ذہین و فطین آدمی سے یہ بات مخفی نہیں کہ یہ روایات اور انہی جیسی دوسری روایات ہمارے مذہب پر صراحت کے ساتھ دلالت نہیں کرتیں،بلکہ ان میں دوسرا احتمال بھی پایا جاتا ہے۔جو کوئی صریح دال،وہ اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنا ہر قعدے کے لیے ہے،جیسا کہ(ہمارے احناف کا)دعویٰ ہے۔انصاف کی بات تو یہ ہے کہ قعدئہ اخیرہ میں بائیں پاؤں کے اوپر بیٹھنے کے سنت ہونے کا پتا دینے والی کوئی ایک بھی صریح حدیث نہیں پائی جاتی،جبکہ حضرت ابو حمید رضی اللہ والی حدیث مفصل ہے،لہٰذا مبہم کو مفصل پر محمول کیا جائے گا۔‘‘[1] غرض کہ دونوں قعدوں میں تورّک صحیح و صریح و غیر معارض دلیل سے ثابت ہے نہ افتراش ہی،بلکہ قعدئہ اولیٰ میں افتراش اور قعدئہ ثانیہ یا اخیرہ میں تورّک مسنون و افضل ہے۔اسے ہی کبار محدثین کرام رحمہم اللہ نے ترجیح دی ہے۔اب رہا حنابلہ اور شافعیہ کا جزوی فرق تو ان میں وہ اختلافِ رائے صرف سبب و علت یا حکمت کی بنا پر ہے،جو ذکر کی جا چکی ہیں۔ان میں سے بھی بعض کبار محدثین کرام رحمہم اللہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مسلک کو اور بعض دیگر نے امام شافعی رحمہ اللہ والے مسلک کو
Flag Counter