Maktaba Wahhabi

115 - 738
ثابت ہے۔[1] یہ بھی کہا گیا ہے کہ اونٹوں کے باڑے میں اونٹوں والے ان کی اوٹ لے کر پیشاب و پاخانہ بھی کر لیتے ہیں،اس لیے وہاں نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے،لیکن اس سلسلے میں صحیح تر بات پہلی ہی ہے۔شارحینِ حدیث نے لکھا ہے کہ اونٹ جب اکٹھے ہوں تو ان میں شیطنت بڑھ جاتی ہے اور جب وہ اکیلا ہو تو وہ ایسا نہیں رہتا،بلکہ جب اس پر کاٹھی رکھ دی جائے اور سفر میں ہو تو وہ پُر سکون رہتا ہے،لہٰذا ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد و تعارض نہیں ہے۔اس کی تائید مصنف عبدالرزاق میں مروی ایک اثر سے بھی ہوتی ہے جس میں مذکور ہے: ((إِنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ یَکْرَہُ اَنْ یُصَلِّیَ اِلٰی بَعِیْرٍ اِلاَّ وَعَلَیْہِ رَحْلٌ))[2] ’’حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہما)اس وقت تک اونٹ کا سترہ بنا کر نماز پڑھنے کو ناپسند کرتے تھے جب تک اس پر کاٹھی نہ ڈالی گئی ہو۔‘‘ سفر کے دوران میں اونٹ کا سترہ بنا لینا وقتِ ضرورت ہی ہوتا تھا۔ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً سامنے برچھی گاڑ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔ضرورت کے وقت اونٹ کا سترہ بنانے کی نظیر وہ احادیث بھی ہیں،جن میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چارپائی کو سامنے رکھ کر بھی نماز پڑھی ہے جس پر ایک عورت(اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا)سوئی ہوئی ہوتی تھیں اور وہ بھی ایک ضرورت کے تحت تھا،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دولت خانہ بہت چھوٹا تھا اور جگہ کی تنگی کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔[3] دورانِ سفر اونٹ کو سترہ بنا لینا بھی ایسے ہی وقتِ ضرورت پر محمول کریں تو اشکال ہی کوئی نہیں رہتا۔ 3۔سُترے کی مقدار: یاد رہے کہ فقہا نے اونٹ کی کاٹھی کے آخری حصے کو سترے کی کم از کم مقدار قرار دیا ہے۔اونٹ کی کاٹھی کے اس آخری حصّے کی مقدار کی تعیین میں دو معروف قول ہیں،پہلا یہ کہ ایک ہاتھ اور دوسرا دو تہائی ہاتھ۔یہی دوسرا قول ہی زیادہ مشہور ہے۔لیکن پہلے قول کی تائید حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ایک اثر سے بھی ہوتی ہے۔چنانچہ حضرت نافع رحمہ اللہ کا بیان ہے: ((إِنَّ مُؤَخِّرَۃَ رَحْلِ ابْنِ عُمَرَ کَانَتْ قَدْرَ ذِرَاعٍ))[4]
Flag Counter