Maktaba Wahhabi

688 - 738
امام نووی رحمہ اللہ نے بھی ایک سلام کو واجب قرار دیا ہے،دوسرے کو سنت قرار دیا ہے اور اس پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔[1] جبکہ امیر صنعانی کا رجحان دو سلاموں کے وجوب کی طرف ہے،کیونکہ حدیثِ وائل رضی اللہ کی شرح لکھتے ہوئے سبل السلام میں انھوں نے لکھا ہے: ’’وَدَلَّ الْحَدِیْثُ عَلٰی وُجُوْبِ التَّسْلِیْمِ عَلٰی الْیَمِیْنِ وَالْیَسَارِ‘‘ ’’یہ حدیث دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرنے کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ ایک کو واجب قرار دینے والوں کو یہ جواب دیا ہے کہ بعض روایات میں اگرچہ ایک کا ذکر آیا ہے،لیکن جن میں دوسرے کا اضافہ ہے اور عادل روات سے ہے،یہ ان کی معارض نہیں،اور عادل کا اضافہ قبول کیا جاتا ہے۔[2] لہٰذا دونوں ہی واجب ہیں۔ خلاصۂ کلام: گذشتہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض علما و فقہا تو دونوں طرف سلام پھیرنے ہی کو غیر واجب یعنی محض سنّت سمجھتے ہیں۔بعض دوسری یا بائیں طرف کو سنت اور دائیں طرف کو واجب اور بعض کے نزدیک دونوں طرف ہی سلام پھیرنا واجب ہے۔ان میں سے اوّل الذکر رائے کے قائلین کے دلائل پر مبنی احادیث یا تو صحیح نہیں اور اگر صحیح ہیں تو وہ محل نزاع کے بارے میں واضح اور صریح نہیں،جیسا کہ تفصیل گزری ہے۔آخر الذکر دونوں آرا کے قائلین کے پاس صحیح احادیث پر مبنی دلائل ہیں،جن سب کو یوں جمع کیا جا سکتا ہے کہ سلام وجوباً یا استحباباً دونوں طرف ہی پھیرنا چاہیے۔یہی امام احمد کے نزدیک محبوب ترین بات ہے۔ہاں اگر کبھی کبھی صرف ایک ہی سلام پر اکتفا کر لیں تو بھی نماز صحیح ہے۔ مقتدی کے سلام پھیرنے کا وقت: یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ جب نماز باجماعت ادا کی جارہی ہو اور امام سلام پھیرے تو مقتدیوں کو کب سلام پھیرناچاہیے؟ اس سلسلے میں عرب ممالک میں تو یہ معروف و معمول بہ ہے کہ جب تک امام دونوں طرف سلام پھیر کر فارغ نہ ہو جائے مقتدی دائیں طرف سلام پھیرنا شروع ہی نہیں کرتے،جبکہ ہمارے
Flag Counter