Maktaba Wahhabi

379 - 738
اس لیے یہ حدیث سخت ضعیف ہے اور شاہد و موید بننے کے قابل بھی نہیں،اس لیے کبار محدثین نے حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ کو ضعیف قرار دیا ہے۔البتہ سورۃ القیامہ کی آخری آیت اور سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت کا جواب دوسری احادیث میں بھی مروی ہے۔ چند غلط فہمیوں کا ازالہ: یہاں بعض ایسے امور کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جو بعض لوگوں میں بڑی سختی سے مروّج ہیں،لیکن شرعی دلیل ان کا ساتھ دینے سے قاصر ہے۔ سورۃ الغاشیہ کی آخری آیت کا جواب: بعض حضرات امام کے سورۃ الغاشیہ کی آخری آیت{ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ﴾کی قراء ت کے بعد مقتدیوں کے لیے ’’اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَسِیْرًا‘‘ کہنے کو مسنون قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ صحیح ابن خزیمہ،مسند احمد اور مستدرک حاکم میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُوْلُ فِیْ بَعْضِ صَلَوَاتِہِ:اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا))[1] ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض نمازوں میں یہ کہتے سنا ہے:’’اَللّٰہُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا‘‘(اے اللہ!میرا حساب آسان کر دے!)‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے اور علامہ ذہبی نے ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔اس کی سند میں ایک راوی محمد بن اسحاق ہیں جو معروف مدلس راوی ہیں۔اگر وہ تحدیث کی صراحت نہ کریں تو ان کی بیان کردہ وہ روایت ضعیف شمار ہوتی ہے اور اگر تحدیث کا صیغہ استعمال کریں تو پھر ضعف ختم ہو جاتا ہے،پھر حدیث صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہو جاتی ہے،اس حدیث میں انھوں نے تحدیث کی تصریح کی ہے،لہٰذا یہ کم از کم حسن درجے کی حدیث ہے جو قابل قبول ہوتی ہے۔لیکن اس میں یہ کہاں آیا ہے کہ سورۃ الغاشیہ کی آخری آیت کے بعد قاری اور سامع یہ جواب دیں؟
Flag Counter