Maktaba Wahhabi

618 - 738
پہلا جواب: لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف صحیح بخاری شریف کی حدیث ہے،جس میں تورّک وارد ہوا ہے،دوسری طرف یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے جس سے بہ ظاہر دونوں ہی قعدوں میں افتراش کا پتا چلتا ہے،ایسے میں ان دونوں حدیثوں میں جمع و تطبیق صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس حدیث کو تشہد اوّل یا قعدہ ٔاولیٰ پر محمول کیا جائے۔ان دونوں حدیثوں کو یکجا اور بیک وقت قابل عمل بنانے کے لیے یہ ضروری بھی ہے،تا کہ کسی ایک صحیح حدیث کو بلا وجہ ترک کرنے کا ارتکاب کرنے کی نوبت نہ آنے پائے،جبکہ نسخ کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دوسرا جواب: اس کا دوسرا جواب اصولِ حدیث کی رو سے یہ بھی دیا جاتا ہے کہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ سے مروی صحیح بخاری اور دیگر کتب والی حدیث تورّک کے ثبوت کے لیے ایک نص صریح ہے،جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث تورّک کی نفی میں نص نہیں،بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا ظاہر تورّک کی نفی پر دلالت کرتا ہے اور ایسی صورت میں اصولی قاعدہ یہ ہے: ’’اَلنَّصُّ مُقَدَّمٌ عَلـٰی الظَّاہِرِ عِنْدَ التَّعَارُضِ‘‘[1] ’’جب ظاہر اور نص کا تعارض ہو جائے تو نص مقدم ہوگی۔‘‘ لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں سے تورّک کے اثبات والی نص تورّک کی نفی کرنے والے ظاہری مفہوم سے مقدم ہوگی۔اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ افتراش والی یہ حدیث مبہم ہے اور تورّک والی حدیث ابو حمید مفصل ہے۔’’فلیحمل المُبہم علی المُفصّل‘‘[2] ’’پس مبہم کو مفصل پر محمول کیا جائے گا۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ تورّک و افتراش کے بارے میں احادیث مطلق ہیں،جبکہ ابو حمید رضی اللہ والی حدیث میں قید ہے کہ پہلے قعدے میں افتراش اور دوسرے یا آخری میں تورّک ہے۔ ’’فَوَجَبَ حَمْلُ ذٰلِکَ الْمُجْمَلِ عَلَیْہِ‘‘[3]
Flag Counter