Maktaba Wahhabi

544 - 738
میں اجازت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔[1] 2۔ تعوذ کے سلسلے میں ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ صرف پہلی رکعت کی قراء ت شروع کرتے وقت ہی نہیں،بلکہ ہر رکعت میں قراء ت شروع کرتے وقت بھی تعوذ پڑھا جائے۔امام عطاء،حسن بصری اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ ہر رکعت میں تعوذ کو مستحب قرار دیتے ہیں،جیسا کہ امام شوکانی نے نیل الاوطار میں نقل کیا ہے۔امام نووی نے شافعیہ اور امام ابن سیرین کا یہی مذہب لکھا ہے،جبکہ انھوں نے امام عطاء،حسن بصری اور ابراہیم نخعی کو صرف پہلی رکعت میں تعوذ کے قائلین میں شمارکیا ہے۔[2] ممکن ہے کہ ان تینوں ائمہ کرام رحمہ اللہ سے دونوں طرح کے اقوال ملتے ہوں۔بہرحال امام شوکانی نے ہر رکعت کی قراء ت کے شروع میں تعوذ کے قائلین کی جو دلیل ذکر کی ہے،وہ قرآن کریم کی اس آیت کا عموم ہے،جس میں ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾[النحل:98] ’’جب قرآن پاک کی تلاوت کرو تو پہلے تعوذ ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھ لو۔‘‘ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس آیت میں قرآن کریم کی تلاوت و قراء ت سے قبل تعوذ کی مشروعیت آئی ہے اور یہ عام ہے،قاری نماز میں ہو یا نماز سے باہر۔[3] ان قائلین کی اس دلیل کا جواب بھی انھوں نے دیا ہے جس میں بتایا ہے کہ سنت میں وارد حکم کی رو سے صرف پہلی ہی رکعت میں تعوذ زیادہ قرین احتیاط ہے۔[4] علامہ البانی کا اختیار: دورِ حاضر کے معروف محدث علامہ البانی نے بھی ہر رکعت کے شروع میں تعوذ کی مشروعیت والا قول ہی اختیار کیا ہے اور اپنی کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ میں لکھا ہے:
Flag Counter