Maktaba Wahhabi

588 - 738
مسئلہ رفع یدین کی تفصیلات کا اصل موقع تو رکوع کے مسائل ہیں،جہاں اسے پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے،لیکن چونکہ تیسری رکعت کے لیے ہاتھ باندھنے سے قبل بھی یہ مسنون و ثابت ہے،اس لیے اس کے ثبوت کے طور پر بھی بعض احادیث ہم پیش کر چکے ہیں۔ شیخ جیلانی رحمہ اللہ کا فتویٰ: مسلمانانِ پاک و ہند کے یہاں قابل احترام اور معروف پیر شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ جنھیں نہ صرف پیر بلکہ پیر پیراں یا پیرانِ پیر بھی کہا اور مانا جاتا ہے،ان کے نام کی گیارھویں بھی پکائی اور بانٹی جاتی ہے،انھوں نے بھی اپنی کتاب ’’غُنیۃ الطالبین‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’نماز میں پچیس ہیئتیں ہیں۔‘‘ انہی میں سے اس رفع یدین کو بھی شمار کیا ہے اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ والی،رکعت سے پہلے والی اور رکوع کے بعد والی رفع یدین کا بطورِ خاص تذکرہ کیا ہے۔[1] ایک افسانہ: اس موضوع کے آخر میں یہاں آپ کی توجہ اس افسانے کی طرف بھی مبذول کروانا ضروری معلوم ہوتا ہے،جس سے لوگوں میں غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے۔وہ یوں کہ رفع یدین کی سنیت و مشروعیت کو مشکوک بنانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ رفع یدین شروعِ اسلام میں اس لیے مشروع ہوئی تھی کہ لوگ اپنی بغلوں میں بت چھپا کر لے آتے تھے اور نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ بات نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ کسی حدیثِ نبوی ہی سے ثابت ہے،یہ خلفاے راشدین میں سے کسی نے کہی ہے اور نہ آثارِ صحابہ میں ہے۔تابعین کرام،تبع تابعین عظام اور چاروں ائمہ مجتہدین میں سے بھی کسی نے یہ بات نہیں کہی۔جب ان سب میں سے کسی سے بھی یہ بات ثابت نہیں تو پھر یہ ایک بے سروپا کہانی اور طبع زاد افسانہ ہی ہو سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خود مانعین رفع یدین میں سے بھی کسی محقق عالم کی کتاب یا خطاب میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔لہٰذا صحیح بخاری شریف جیسی کتب میں وارد احادیث کے مقابلے میں ایسے افسانوں سے دل کو بہلانا اس دَورِ علم و ضیا کے لوگوں کی شان نہیں۔ویسے بھی ایسے قصے اور کہانیاں مقامِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے منافی ہیں،کیونکہ اس طرح تو ان کی نسبت بدظنی کا پہلو بھی نکلتا ہے۔پھر یہ بات تو عقلی نقطۂ نظر سے بھی
Flag Counter