Maktaba Wahhabi

476 - 738
میں بیان کیا جا چکا ہے۔تیسرا شاہد مصنف عبدالرزاق میں حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔[1] ان شواہد سے مل کر یہ حدیثِ وائل صحیح ہو جاتی ہے۔[2] اس میں یہ بات بھی آگئی ہے کہ بہ وقتِ سجدہ ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسرے سے ملا کر رکھنا چاہیے۔ ہاتھوں کی انگلیاں قبلہ رُو رہیں۔انھیں جوڑ کر رکھنے سے ایسا خود بخود ہو جائے گا،البتہ بعض لوگ بڑی بے توجہی سے ہاتھوں کو زمین پر اس طرح رکھتے ہیں کہ ان کی انگلیاں چاہے جڑی ہوئی ہی کیوں نہ ہوں،وہ اپنے ہاتھوں کا رخ دائیں بائیں کر دیتے ہیں،جس سے انگلیاں قبلہ رو ہونے کے بجائے شمال و جنوب کی طرف ہو جاتی ہیں۔یہ انداز آدابِ سجدہ کے منافی ہے،کیونکہ صحیح بخاری،سنن ابوداود،شرح السنہ،سنن بیہقی اور صحیح ابنِ خزیمہ میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ سے مروی حدیث میں ہے: ((فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِہِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِاَطْرَافِ اَصَابِعِہِ الْقِبْلَۃَ))[3] ’’جب سجدہ کیا تو دونوں ہاتھوں کو نہ بچھا کر اور نہ بھینچ کر زمین پر رکھا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو قبلہ رُو رکھا۔‘‘ اسی طرح سنن بیہقی میں بہ سند صحیح اور مصنف ابن ابی شیبہ و مسند سراج کے یہاں ایک دوسرے طریق سے بھی آیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں کو قبلہ رُو رکھتے تھے۔[4] کلائیاں یا بازو پہلوؤں سے الگ رکھنا: اب یہ بات بھی بیان کر دیں کہ بعض نمازیوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ بہ وقتِ سجدہ اپنی کلائیوں اور بازوؤں کو اپنے گھٹنوں کے ساتھ لگائے ہوئے اور پسلیوں سے جوڑے ہوئے ہوتے ہیں،جو صحیح نہیں ہے،بلکہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ سجدے میں نمازی بازوؤں کو پہلوؤں سے ہٹا کر رکھے۔ 1۔ چنانچہ صحیح بخاری،سنن ابو داود،صحیح ابنِ خزیمہ،شرح السنہ اور سنن بیہقی میں حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ
Flag Counter