Maktaba Wahhabi

493 - 738
کی مثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پشت پر بندھے ہاتھوں والے شخص سے اس لیے دی ہے کہ اس کے ہاتھ بھی زمین پر لگ کر سجدہ نہیں کر سکتے۔[1] حضرات عمر،عثمان،علی،حذیفہ،ابن عمر،ابوہریرہ،ابن مسعود،ابن عباس رضی اللہ عنہم اور امام ابراہیم نخعی اور دیگر تابعین و ائمہ رحمہم اللہ نے اس طرح بالوں کو باندھ کر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں اسے اہل علم کا قول قرار دیا ہے۔[2] عورتوں کے لیے حکم: اس ساری تفصیل سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ شاید اس معاملے میں عورتوں کا بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی اپنے بالوں کو نہ باندھیں یا نہ سمیٹیں،جبکہ ایسا نہیں ہے،بلکہ بال عورت کا حسن ہے اور حسن و زینت ہونے کے علاوہ مقامِ ستر بھی ہے۔انھیں وہ جس انداز سے بھی باندھ سنبھال کر رکھے،اس کے لیے جائز ہے۔اس حکم کے عورتوں کے ساتھ خاص نہ ہونے کی تصریح امام عراقی نے کی ہے۔جیسا کہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ان سے نقل کیا ہے(بالوں کو کھلا چھوڑنا مَردوں کے ساتھ خاص ہے)عورتیں اس حکم میں شامل نہیں،کیونکہ ان کے بال نماز میں ستر ہیں،جن کا ڈھانپنا واجب ہے۔اگر وہ انھیں کھول کر لٹکتا چھوڑ دیں گی تو ان کا ستر اور ڈھانپنا مشکل ہو جائے گا،جس سے ان کی نماز باطل ہوگی۔ اسی طرح انھیں نماز کے لیے بالوں کو کھولنے میں مشقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسلِ جنابت میں بھی بالوں کی مینڈھیاں نہ کھولنے کی اجازت دی ہے،اگرچہ اس وقت انھیں تمام بالوں کو کھولنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔جب اس وقت بالوں کو نہ کھولنے کی رخصت و اجازت دی گئی ہے تو نماز کے لیے بالوں کو نہ کھولنے کی اجازت بالاولیٰ ہے۔[3] پگڑی یا ٹوپی پر سجدہ: ’’احکام المساجد‘‘ کے موضوع پر اپنی مستقل کتاب میں ہم بالتفصیل ذکر کر چکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس کس چیز پر نماز پڑھی ہے،مثلاً چٹائی،بستر کی چادر اور جا نماز وغیرہ۔تو ان تمام اشیا پر سجدہ بھی
Flag Counter