Maktaba Wahhabi

209 - 738
پکڑے والی دونوں صورتوں کے جمع کرنے کو مستحسن قرار دیا ہے۔[1] لیکن یہ صورت خود ساختہ اور مبنی بر تکلف ہے۔علامہ عبیداللہ رحمانی مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مختلف اوقات میں مختلف انداز کی روایتوں میں کوئی تناقض نہیں ہے،لہٰذا جمع و تطبیق محض تکلف ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں۔بلکہ بعض اہلِ علم نے تو اس جمع و تطبیق کو بدعت قرار دیا ہے۔[2] 5۔ ہاتھ باندھنے سے تعلق رکھنے والی پانچویں وضاحت یہ ہے کہ پوری کلائی پر کلائی رکھ لینا یا دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی کہنی کو پکڑ لینا احادیث سے قطعاً ثابت نہیں ہوتا،لہٰذا اس غیر ثابت فعل کے بجائے مسنون طریقہ پر عمل کرنا چاہیے۔[3] ہاتھ باندھنے کی جگہ: مذکورہ بالا احادیث و آثار کے علاوہ بعض دوسری احادیث و آثار بھی ہیں جن میں ہاتھ باندھنے کے علاوہ ہاتھ باندھنے کی جگہ کا بھی ذکر آیا ہے۔جبکہ پہلی ذکر کردہ احادیث میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں تھا،بلکہ مطلق ہاتھ باندھنے ہی کا ذکر تھا۔ نماز میں قیام کے دوران میں ہاتھ باندھنے کی جگہ یا مقام کے بارے میں اہل علم کے تین اقوال ہیں: 1۔ ناف سے اوپر سینے کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔ 2۔ سینے پر ہاتھ باندھے جائیں۔ 3۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔ آئیے!ان تینوں اقوال کے قائلین کے دلائل دیکھیں اور ان کا جائزہ لیں،تاکہ ان اقوال میں سے صحیح تر کا تعین کیا جا سکے۔ سینے پر ہاتھ باندھنے کے دلائل: ناف سے اوپر اور سینے کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائلین شافعیہ اور امام نووی رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق جمہور اہلِ علم ہیں۔ایک روایت میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے اور ایک
Flag Counter