Maktaba Wahhabi

737 - 738
آجائے گا جو ایک رکعت پڑھ کر چلا گیا تھا،اب وہ اپنے طور پر دوسری رکعت کے قیام و رکوع اور قومہ و سجود سے فارغ ہوں گے۔اس کے بعد امام اور نمازیوں کے دونوں حصے مل کر تشہد و دعا سے فارغ ہوں گے اور اکٹھے ہی سلام پھیریں گے۔ اس طرح امام کی بھی دو رکعتیں ہوں گی اور مقتدیوں کی بھی،نماز کا آغاز بھی سب مل کر کریں گے اور سلام بھی اکٹھے ہی پھیریں گے۔یہ طریقہ سنن ابو داود،نسائی اور مسند احمد میں مذکور ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ غزوۂ نجد کے سال خود میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ خوف(اسی طرح)پڑھی۔[1] چھٹا طریقہ: چھٹا طریقہ یہ ہے کہ نمازیوں کے دو گروہ بن جائیں اور ہر گروہ باری باری امام کے ساتھ صرف ایک ایک رکعت پڑھ کر ہی سلام پھیرتا جائے اور اسی ایک رکعت پر ہی کفایت کرے،دوسری رکعت ساتھ نہ ملائے۔اس طرح امام کی تو دو رکعتیں ہو جائیں گی،لیکن نمازیوں کی صرف ایک ایک رکعت ہی مکمل نماز ہوگی۔یہ طریقہ ابو داود،نسائی اور صحیح ابن حبان میں مذکور ہے۔سنن نسائی و ابن حبان میں ہے کہ ذی قرد کے مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح نماز پڑھائی۔سنن ابو داود و نسائی کی دوسری روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ الخوف کے حوالے سے قبرستان میں حضرت حذیفہ رضی اللہ کا اسی طرح نماز پڑھانا مذکور ہے۔سنن نسائی کی ایک تیسری روایت میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلاۃ الخوف کا یہ بھی طریقہ منقول ہے۔[2] جبکہ سنن ترمذی،نسائی اور مسند احمد میں ضجنان و عسفان کے مابین بھی اسی طرح نمازِ خوف پڑھانا وارد ہوا ہے۔[3] ایک اشکال اور اس کا ازالہ: اب رہا یہ اشکال کہ مقتدیوں کی اس صورت میں صرف ایک رکعت ہی کیسے کافی ہوگی اور صلاۃ الخوف کا کبھی صرف ایک رکعت ہی ہونا کہاں ثابت ہے؟
Flag Counter