Maktaba Wahhabi

327 - 738
سورت فاتحہ کے بعد والی سورت یا سورت کے کسی حصے کے عدمِ وجوب پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔یہ دعوائے اجماع تو محل نظر ہے،کیونکہ بعض صحابہ اور دیگر اہل علم سے وجوب کا قول ملتا ہے،جیسا کہ امام ابن المنذر نے نقل کیا ہے،لیکن شاید اجماع کے دعویدار ائمہ کا مقصود یہ ہے کہ بالآخر اس امر پرسب کا اتفاق ہوگیا تھا۔[1] امام ابن قدامہ نے بھی لکھا ہے کہ سورت فاتحہ کے بعد کسی سورت کی قراء ت کے مسنون ہونے کے بارے میں ہمیں کسی کا اختلاف معلوم نہیں۔[2] نئے نمازی،نو مسلم اور عاجز کے لیے قراء ت کا حکم: بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی آدمی بڑھاپے میں جاکر راہِ ہدایت پر آیا اور اس نے نماز شروع کی جبکہ اسے سورت فاتحہ اور دوسری کوئی سورت زبانی یاد نہیں ہے،یا پھر ایک آدمی حال ہی میں مسلمان ہوا اور مسلمان ہوتے ہی اس پر نماز تو فرض ہو گئی جو اسے ادا کرنی ہوگی،اسے بھی سورت فاتحہ اور قرآن کا دوسرا کوئی حصہ یاد نہیں ہے اور قراء تِ فاتحہ کی اہمیت ذکر کی جا چکی ہے،اب یہ لوگ اس سلسلے میں کیا کریں؟ اس کا جواب بھی کتبِ حدیث میں موجود ہے۔چنانچہ سنن ابو داود،نسائی،دارقطنی،بیہقی،طیالسی،مستدرک حاکم،ابن حبان،ابن خزیمہ،مسند حمیدی،شرح السنہ بغوی،مصنف عبدالرزاق،کتاب القراء ۃ بیہقی اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن ابی عوفی رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا: ((اِنِّیْ لاَ اَسْتَطِیْعُ اَنْ آخُذَ مِنَ الْقُرْآنِ شَیْئًا،فَعَلِّمْنِیْ مَا یُجْزِئُ نِیْ مِنْہُ)) ’’مجھے قرآن میں سے کچھ نہیں آتا۔مجھے وہ سکھا دیں جو میرے لیے کافی ہو۔‘‘ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کہا کرو: ((سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ)) ’’اللہ پاک ہے،تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے،اللہ سب سے بڑا ہے اور مجھ میں نیکی کرنے یا برائی سے بچنے کی طاقت نہیں ہے سوائے اللہ کی توفیق کے۔‘‘
Flag Counter