Maktaba Wahhabi

206 - 738
ہاتھ کے اوپر رکھا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھوں کو کھینچ کر(چھڑا کر)دائیں کو بائیں کے اوپر رکھ دیا۔‘‘ نیز حضرت جابر رضی اللہ سے مروی ہے: ((مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِرَجُلٍ،وَہُوَ یُصَلِّیْ،وَقَدْ وَضَعَ یَدَہُ الْیُسْرٰی عَلَی الْیُمْنٰی فَانْتَزَعَہَا وَوَضَعَ الْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْرٰی))[1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے نمازی کے پاس سے ہوا جس نے اپنا بایاں ہاتھ دائیں کے اوپر رکھا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھوں کو(نماز ہی میں)چھڑا کر دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھ دیا۔‘‘ ان احادیث سے ان لوگوں کو بھی اپنی اصلاح کر لینی چاہیے جو بے دھیانی اور لا علمی میں آج تک نماز کے لیے قیام کے وقت جب ہاتھ باندھتے ہیں تو دایاں ہاتھ نیچے اور بایاں اوپر رکھتے ہیں۔یہ بات مَردوں میں تو شاذ ہی ہوگی،کیونکہ مسجد میں دوسرے لوگوں کو دیکھ کر بھی اصلاح ہو جاتی ہے،البتہ گھروں میں خواتین کی اصلاح کے مواقع نسبتاً کم ہوتے ہیں اور بعض خواتین کے بایاں ہاتھ دائیں کے اوپر باندھنے کی اطلاع ہمیں ملی ہے۔غرض مَرد و زن میں سے کوئی بھی ہو،سب کے لیے ہاتھ باندھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دایاں ہاتھ اوپر ہو اور بایاں نیچے۔ ہاتھ باندھنے کی حکمتیں: ہاتھ کو نیچے نہ لٹکانے بلکہ باندھ کر نماز میں کھڑے ہونے کی اہلِ علم نے بعض حکمتیں بھی بیان کی ہیں: 1۔ پہلی حکمت تو یہ ہے کہ یوں ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا ایک حقیر اور خاکسار سائل یا سوالی کی صورت ہوتی ہے۔بندہ چونکہ اس کائنات کے خالق و مالک اور اپنے معبودِ حقیقی کے سامنے کھڑا ہوتا ہے،لہٰذا عجز و انکساری کے لائق ہاتھ باندھ کر یوں کھڑے ہونا ہی ہے۔ 2۔ اس کی دوسری حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے سے ہاتھوں سے کوئی عبت حرکت نہیں ہو پاتی،لہٰذا خشوع و خضوع بھی اسی طرح زیادہ ممکن ہوتا ہے۔امام
Flag Counter