Maktaba Wahhabi

119 - 738
’’ستونوں کے ساتھ ٹیک لگا کر باتیں کرنے والوں کی نسبت نمازی اِس کے زیادہ حق دار ہیں(کہ وہ انھیں سترہ بنا کر نماز پڑھیں)۔‘‘ اگرچہ ستون باتیں کرنے والوں اور نمازیوں دونوں کی مشترکہ ضرورت ہیں،لیکن نمازی چونکہ عبادت میں ہوتے ہیں،اس لیے وہ ان کے زیادہ حق دار ہوتے ہیں کہ انھیں سترہ بنائیں اور نماز پڑھیں۔اسی طرح حضرت قرہ بن ایاس مزنی رضی اللہ سے موصولاً مروی ہے: ((رَاٰی عُمَرُ رَجُلًا یُصَلِّیْ بَیْنَ اُسْطُوَانَتَیْنِ فَاَدْنَاہُ اِلٰی سَارِیَۃٍ فَقَالَ:صَلِّ اِلَیْہَا))[1] ’’حضرت عمر رضی اللہ نے ایک آدمی کو دو ستونوں کے مابین نماز پڑھتے دیکھا تو پکڑ کر اسے ایک ستون کے پاس کر دیا اور فرمایا:اس کو سُترہ بنا کر نماز پڑھو۔‘‘ یہ صحیح بخاری کے الفاظ ہیں،جبکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں خود حضرت قرہ رضی اللہ بیان کرتے ہیں: ((فَاَخَذَ بِقَفَايَ))’’ تو انھوں نے مجھے میری گردن سے پکڑا۔‘‘ پھر آگے وہی بات ہے کہ ’’مجھے ایک ستون کے سامنے کر کے فرمایا:اسے سترہ بنا کر نماز پڑھو۔‘‘ ان دونوں آثار و اقوال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ احادیث میں جو ستون کے پاس نماز پڑھنے کا ذکر آیا ہے،وہاں ستون کو سترہ بنا کر نماز پڑھنا مراد ہے۔[2] درخت،ستون یا عصا کہاں ہونا چاہیے؟ مساجد میں ستونوں کی مشرقی جانب کثرتِ سجود کی وجہ سے باقاعدہ دھبے بنے ہوئے ہوتے ہیں جو دراصل ایسے نمازیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جو ستون کو اپنے عین سامنے رکھ کر نماز پڑھتے ہیں۔اس سے ایسے نمازیوں کے ذہنی رجحان کا پتا چل جاتا ہے کہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ستون کا سترہ بنا کر نماز پڑھیں،تاکہ کوئی آگے سے گزرنے والا ان کی نماز میں خلل انداز نہ ہو اور یہ صحیح بھی ہے،البتہ اس میں اتنی سی تبدیلی کر لیں کہ ستون یا عصا وغیرہ کا سُترہ ہو تو وہ عین سامنے نہ ہو،بلکہ تھوڑا سا دائیں یا بائیں جانب ہو۔بالفاظِ دیگر عصا ناک کے سامنے نہ آئے،بلکہ دائیں یا بائیں کندھے کے سامنے ہو،کیونکہ بعض اہلِ علم نے اس انداز کو اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔لیکن یہاں
Flag Counter