Maktaba Wahhabi

247 - 738
’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنا سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ۔۔۔یا کسی بھی دوسری ثنا و دُعا کے بعد اور سورت فاتحہ شروع کرنے سے پہلے ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنا چاہیے،کیونکہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾[النحل:98] ’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو(یعنی ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ‘‘ پڑھ لیا کرو)۔‘‘ قرآن کریم کی اس آیت کے ظاہر سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت و قراء ت سے پہلے تعوذ واجب ہے،کیونکہ امر کے صیغے{فَاسْتَعِذْ﴾سے تعوذ کا حکم دیا گیا ہے اور جب تک کوئی قرینۂ صارفہ نہ ہو،امر وجوب کے لیے ہوتا ہے،چنانچہ اہلِ علم نے قرائن صارفہ کی وجہ سے تعوذ کو سنت قرار دیا ہے۔امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر وہ تعوذ بھول کر قراء ت شروع فرما دیتے تو پھر تعوذ کی طرف نہیں لوٹتے تھے۔[1] ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ۔۔۔‘‘ ہی کو تعوذ کہا جاتا ہے اور تعوذ کے بھی مختلف صیغے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔عام طور پر تعوذ کا مشہور و معروف اور زبان زدِ خاص و عام صیغہ تو یہ ہے:’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ جبکہ کتبِ حدیث میں فقط اتنے الفاظ پر مشتمل صیغہ ثابت نہیں۔بعض کبار محدثین نے اس مختصر صیغے کے وجود سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے اور لکھا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ تعوذ کا یہ صیغہ یا یہ الفاظ دوسرے اضافوں کے ساتھ ثابت ہیں،ان میں سے کسی ایک کے بھی بغیر ہو تو پھر ثابت نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یا تو ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ‘‘ کہیں یا ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ کہیں یا پھر ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ‘‘ کہیں۔یہ تینوں انداز ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث شریفہ اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ثابت ہیں۔اگر ’’السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ‘‘ کے بغیر یا ’’مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ‘‘ کے بغیر یا ان دونوں کے بغیر معروف انداز سے تعوذ پڑھیں تو یہ صیغہ ثابت نہیں ہے۔
Flag Counter