Maktaba Wahhabi

703 - 738
بہ ظاہر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں قصر صرف ’’خوف‘‘ کے وقت ہی جائز ہے۔لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طرزِ عمل سے پتا چلتا ہے کہ قصر ہر سفر میں جائز ہے،خواہ اس میں کوئی خوف ہو یا اس کا شائبہ تک بھی نہ ہو۔’’خوف‘‘ کے اوقات کی نماز جنگی حالات کے مطابق مختلف احوال میں مختلف انداز سے پڑھی جاتی ہے،جسے ’’صلاۃ الخوف‘‘ کہا جاتا ہے،جس کے بعض ضروری احکام و مسائل بھی ہم بعد میں ذکر کریں گے،ان شاء اللہ۔بلا خوف و خطر سفر میں قصر کرنے کے عدمِ جواز کا جو شبہہ مذکورہ آیت کے آخری کلمات سے ہو سکتا ہے،اس کا ازالہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے فرما دیا ہے۔ صحیح مسلم،سنن ابو داود،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ سے پوچھا:کیا وجہ ہے کہ لوگ اب تک سفر میں قصر کیے جارہے ہیں،حالانکہ اللہ تعالیٰ صرف یہ فرماتا ہے کہ ’’جب تم سفر کے لیے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں،اگر نماز میں قصر کر لو جبکہ تمھیں اندیشہ ہو کہ کافر تمھیں ستائیں گے۔‘‘ آج خوف کی یہ حالت باقی نہیں رہی۔اس پرحضرت عمر فاروق رضی اللہ نے فرمایا: ((عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْہُ))فَسَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَقَالَ:((صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِہَا عَلَیْکُمْ،فَاَقْبَلُوْا صَدَقَتَہٗ))[1] ’’جس چیز پر آپ کو تعجب ہو رہا ہے خود مجھے بھی اس پر تعجب ہوا تھا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’یہ ایک صدقہ ہے،جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے،لہٰذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔‘‘ قصر کی رکعتیں: قصر کرنے پر ہر نماز کی کتنی رکعتیں پڑھی جاتی ہیں؟اس کی وضاحت صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،نسائی،مسند احمد اور سنن بیہقی میں موجود ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ(شروع میں)نماز کی دو رکعتیں فرض کی گئی تھی،پھر چار کر دی گئیں،لیکن سفر کی نماز پہلے فرضوں جتنی(دو رکعتیں)ہی رہیں۔[2]
Flag Counter