Maktaba Wahhabi

650 - 738
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے جوابات: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ان الفاظ پر مشتمل روایت کے تین جوابات دیے ہیں: 1۔ ان الفاظ پر مشتمل جملے کی صحت محل نظر ہے(یہ تفصیل ہم ذکر کر چکے ہیں کہ یہ جملہ صحیح نہیں بلکہ شاذ یا منکر ہے) 2۔ سنن ابو داود کی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ یہ نماز کے دوران کا واقعہ ہے(ممکن ہے کہ نماز سے باہر کسی موقع پر انگلی سے اشارہ کیا گیا ہو،مگر اُسے حرکت مسلسل نہ دی گئی ہو بلکہ صرف ایک مرتبہ اٹھا دینے پر ہی اکتفا کیا گیا ہو۔ 3۔ اگر اسے بحالت نماز بھی تسلیم کر لیں،تب بھی اس روایت میں حرکت کی نفی کی گئی ہے،جبکہ حضرت وائل رضی اللہ سے مروی حدیث میں حرکت کا اثبات ہے۔وہ حدیث بھی صحیح ہے اور اسے امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور یہ ایک معروف قاعدہ ہے: ’’اَلْمُثْبِتُ مُقَدَّمٌ عَلـٰی النَّافِیْ‘‘[1]’’ثابت کرنے والا نفی کرنے پر مقدم ہوتا ہے۔‘‘ لہٰذا حرکت دینے کا پتا دینے والی حدیث حرکت کی نفی کرنے والی روایت پر مقدم ہوگی۔[2] بعض دیگر اہل علم کے جوابات: 4۔ بعض اہل علم نے ان دونوں طرح کی روایتوں میں جمع و تطبیق دینے کا انداز اختیار کیا ہے کہ ان دونوں کو مختلف مواقع پر محمول کر لیا جائے کہ کبھی حرکت دی اور کبھی نہیں دی ہوگی،جبکہ بعض دیگر نے کہا ہے کہ حضرت وائل رضی اللہ سے مروی حدیث حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کی نسبت صحیح تر اور قوی تر ہے،لہٰذا ان دونوں میں معارضہ و مقابلہ جائز ہی نہیں۔لازماً صحیح تر اور قوی تر ہی کو اختیارکرنا ہوگا۔[3] 5۔ ’’المحلٰی شرح الموطأ‘‘ میں شیخ سلام اللہ نے((وَلَا یُحَرِّکُہَا))کے الفاظ والی روایت کا ایک جواب مالکیہ کی طرف سے یہ بھی لکھا ہے:
Flag Counter