Maktaba Wahhabi

269 - 738
حسن ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ایسے ہی علامہ مبارک پوری نے کہا ہے کہ اگر یہ یزید ثقہ اور قابل احتجاج ثابت ہو جائے تو یہ حدیث حسن ہو گی ورنہ ضعیف۔علامہ زیلعی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح کی قبیل سے تو نہیں البتہ حسن کے درجے سے کم بھی نہیں اور امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔[1] علامہ زیلعی ہی نے ’’نصب الرایۃ‘‘ میں امام نووی کی ’’الخلاصۃ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ،ابن عبدالبر اور خطیب جیسے حفاظِ حدیث نے ضعیف کہا ہے اور امام ترمذی کے اسے حسن کہنے پر نکیر کی ہے۔[2] 5۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلَاۃَ بِالتَّکْبِیْرِ وَالْقِرَائَ ۃِ بِـ﴿الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ))[3] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیرِ تحریمہ اور قراء تِ{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾سے نماز شروع کرتے تھے۔‘‘ اس حدیث سے بھی آہستگی کے ساتھ ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے پر استدلال کیا جاتا ہے،کیونکہ تکبیر تحریمہ کے بعد﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾کا ذ کر آیا ہے۔درمیان میں جو تعوذ و تسمیہ ہے،انھیں سِراً پڑھے جانے کی وجہ سے ان کا ذکر ہی نہیں کیا گیا،اور عدمِ ذکر سے مراد عدمِ جہر ہے،جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے۔ غرض کہ ان سب احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کو بلند آواز سے نہ پڑھا جائے۔ مطابقت و موافقت: جہراً ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے اور سِراً ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے والی ہر دو طرح کی احادیث کے مابین مطابقت و موافقت ممکن ہے اور کبارِ محدثینِ کرام نے ان احادیث کے مابین کئی طرح سے جمع و تطبیق پیدا کی ہے:
Flag Counter