Maktaba Wahhabi

612 - 738
لیکن یہ ایسی علت و حکمت اور سبب ہے،جس کی کوئی صریح دلیل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ شافعیہ کے یہاں اس کی علت ایک دوسری چیز ہے۔ان کے نزدیک تورک کی حکمت و علت تطویلِ تشہد ہے۔چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’اَلسُّنَّۃَ اَنْ یَّجْلِسَ کُلَّ الْجَلَسَاتِ مُفْتَرِشًا اِلَّا الَّتِیْ یَعْقِبُہَا السَّلَامُ،فَلَوْ کَانَ مَسْبُوقًا وَجَلَسَ اَمَامَہٗ مُتَوَرِّکًا جَلَسَ الْمَسْبُوْقُ مُفْتَرِشًا لِأَنَّ جُلُوْسَہٗ لَا یَعْقِبُہٗ بِسَلَامٍ‘‘[1] ’’سنّت یہ ہے کہ تمام قعدو ں میں پاؤں بچھا کر بیٹھیں سوائے سلام والے(آخری)قعدے کے۔اگر کوئی نماز میں دیر سے آ کر ملے اور اس کا امام تورک کے انداز سے بیٹھا ہو تو وہ پاؤں بچھا کر ہی بیٹھے،کیونکہ اس کے لیے اس کا یہ قعدہ سلام والا قعدہ نہیں ہے۔‘‘ 3 شافعیہ: فقہاے شافعیہ کے نزدیک ہر نماز کے آخری اُس قعدے میں تورک ہے،جس کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔وہ چاہے دو رکعتوں والی نماز ہو،جیسے نماز فجر و جمعہ یا عام نوافل،یا چاہے تین رکعتوں والی نماز ہو،جیسے نمازِ مغرب،اور چاہے چار رکعتوں والی نماز ہو،جیسے ظہر و عصر اور عشا کی نمازیں ہیں۔ایک قعدہ والی نماز کے ایک ہی قعدے میں بھی تورک ہوگا اور دو قعدوں والی نماز کے دوسرے یا آخری قعدے میں تورک ہوگا۔ شافعیہ کی دلیل: شافعیہ کا استدلال اس حدیث سے ہے،جس میں سلام کے ساتھ والے آخری رکعت والے قعدے میں تورّک کا ذکر آیا ہے،جو تورّک کے پہلے طریقے کے ضمن میں صحیح بخاری،سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،مسند احمد اور معانی الآثار طحاوی کے حوالے سے ذکر کی جاچکی ہے۔اس میں صحابہ کی ایک جماعت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ سکھلاتے ہوئے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ فرماتے ہیں: ((فَاِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ جَلَسَ عَلٰی رِجْلِہِ الْیُسْرٰی وَنَصَبَ الْیُمْنٰی وَاِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ(وفي روایۃ عبد الحمید:)حَتّٰی اِذَا کَانَتِ السَّجْدَۃُ
Flag Counter