Maktaba Wahhabi

517 - 738
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ دو طرح کی احادیث میں سے ایک میں اقعاء کو سنت کہا گیا ہے اور دوسری میں ممنوع۔اقعاء کے حکم میں بھی علما کا اختلاف ہے اور یہ دو طرح کا ہوتا ہے۔پھر دونوں کا تعارف کروا کر ان میں سے ایڑیوں کے بل بیٹھنے والے اقعاء کو سنت کہا ہے۔امام شافعی کے نزدیک یہ بین السجدتین مستحب ہے۔امام بیہقی،قاضی عیاض اور دیگر کثیر محققین علما کا بھی یہی نظریہ ہے۔صحابہ اور سلف صالحین امت میں سے بھی ایک جماعت کا یہی مسلک ہے۔امام شافعی کے دوسرے اور مشہور قول کی رو سے بین السجدتین بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنا سنت ہے۔گویا ان کے نزدیک یہ دونوں طریقے صحیح ہیں،چاہے کوئی کسی کو بھی اپنا لے۔البتہ ان میں سے کون سا افضل ہے،اس میں اختلاف ہے۔[1] امام نووی نے تو اس معاملے میں کسی جانب کو راجح قرار نہیں دیا،جبکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ ان دونوں میں سے بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھنے والا طریقہ افضل ہے،کیونکہ اس کے بارے میں روایات زیادہ ہیں۔امام خطابی اور امام ماوردی نے اقعاء کو منسوخ قرار دیا ہے،جبکہ صاحب التلخیص نے امام بیہقی و نووی اور حافظ ابنِ الصلاح سے اس کی تردید نقل کی ہے کہ جب ان دونوں کی تاریخیں معلوم نہیں اور ان میں جمع و تطبیق بھی ممکن ہے تو پھر نسخ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔[2] امام خطابی نے معالم السنن میں لکھا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت،ایسے ہی امام نخعی،مالک،شافعی،احمد،اسحاق،اہل الرائے اور اکثر اہل علم اس اقعاء کو مکروہ سمجھتے ہیں۔[3] الغرض اس اقعاء کو جائز مانتے ہوئے بھی نمازی کو اکثر اوقات عمل دوسرے طریقے پر ہی کرنا چاہیے جس میں بائیں پاؤں کو بچھایا اور دائیں کو کھڑا رکھا جاتا ہے،کیونکہ وہ کثرتِ رواۃ کی وجہ سے افضل ہے،پھر وہ نمازی کے لیے آسان بھی ہے اور ہیئت و صورت کے اعتبار سے بھی اچھا نظر آتا ہے۔ وجوبِ اطمینان: جلسہ ’’بین السجدتین‘‘ کے سلسلے میں گفتگو کے آغاز ہی میں ہم صحیحین،سنن اربعہ،صحیح ابو عوانہ
Flag Counter