Maktaba Wahhabi

318 - 738
سورت فاتحہ کے بعد قراء ت کرنا بسم اللّٰه پڑھ کر قرآنِ کریم کی کوئی بڑی یا چھوٹی سورت یا کسی سورت کا کوئی حصہ پڑھیں۔کسی سورت یا اس کے کسی حصے کا پڑھنا تمام ائمہ و فقہا اور محدثین کرام کے نزدیک سنت و مستحب ہے اور صحابہ میں سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ کی ایک روایت میں،امام احمد،مالکیہ میں سے ابنِ کنانہ اور جماعتِ فقہا میں سے صرف احناف کے نزدیک فرض و سنت کے درمیان والے درجے پر یعنی واجب ہے۔[1] کفایتِ فاتحہ اور عدم وجوبِ سورت کے دلائل: اس سورت کے عدم وجوب کے متعلق متعدد دلائل ہیں اور ان دلائل سے ایک دوسری بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص صرف سورت فاتحہ پڑھ کر ہی رکوع چلا جائے تو اس کی وہ رکعت صحیح ہوگی،چاہے وہ نماز فرض ہو یا نفل۔ پہلی دلیل: صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود و بیہقی،مسند احمد اور صحیح ابن خزیمہ میں ایک واقعہ مذکور ہے جس میں منقول ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ کی عادت تھی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازِ عشا مسجد نبوی میں پڑھتے اور یہاں سے لوٹ کر اپنے محلے میں جاتے تو انھیں جا کر جماعت کراتے تھے۔ایک رات وہ لوٹے اور لوگوں کو نماز پڑھائی،اُس رات ان کے قبیلے بنی سلمہ کے ایک نوجوان سلیم نے بھی ان کے پیچھے نماز شروع کی۔جب حضرت معاذ رضی اللہ نے نماز کچھ لمبی کردی(یعنی قراء ت طویل کر دی)تو وہ نوجوان جماعت سے نکلا اور مسجد کے ایک کونے میں الگ سے انفرادی طور پر نماز پڑھ کر باہر نکلا،اپنے اونٹ کی نکیل ہاتھ میں لی اور چل دیا۔جب حضرت معاذ رضی اللہ نماز پڑھ چکے تو انھیں یہ واقعہ بتایا گیا۔انھوں نے کہا اس نوجوان میں نفاق پایا جاتا ہے۔میں اس کے اس فعل کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو
Flag Counter