Maktaba Wahhabi

326 - 738
’’فَصَاعِداً‘‘ کی بحث پر نظر ثانی: بعض احادث ایسی بھی ہیں جن سے فاتحہ کے ساتھ وجوبِ سورت کی طرف اشارہ ملتا ہے اور ان سے ہماری مراد وہ احادیث ہیں جن میں((لاَ صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))اور ان کے ہم معنی الفاظ کے بعد ’’فَصَاعِدًا‘‘،’’فَمَا زَادَ‘‘،’’وَمَا تَیَسَّرَ‘‘ وغیرہ کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ان الفاظ سے فاتحہ سے زائد کے وجوب پر استدلال بھی کیا گیا ہے،جیسا کہ صاحبِ فتح الباری نے نقل کیا ہے۔[1] جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ الفاظ معلول و شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف اور ناقابلِ استدلال ہیں۔جس کی تفصیل جزء القراء ۃ امام بخاری مع ترجمہ اردو طبع ادارہ احیاء السنہ گھرجاکھ گوجرانوالہ(ص:20)التلخیص الحبیر حافظ ابن حجر طبع وتوزیع جامعہ سلفیہ فیصل آباد(1/ 1/ 230)تعلیق الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان بتحقیق شیخ ارناؤوط(5/ 87)عون المعبود شرح سنن ابو داود(3/ 44،طبع مدنی)سنن ترمذی کا حاشیہ العرف الشذی علامہ انور شاہ کاشمیری(ص:150)کتاب القراء ۃ بیہقی مترجم اردو طبع ادارہ احیاء السنۃ گھرجاکھ(ص:22۔25)تحقیق الکلام مبارکپوری طبع فاروقی کتب خانہ ملتان(1/ 38)میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان الفاظ کی روایت میں جو راوی معمر متفرد ہے اس علت کو امام بیہقی نے السنن الکبریٰ(8/ 228)میں،علامہ ابن قیم نے زاد المعاد بتحقیق الارناووط(1/ 516)میں اور علامہ زیلعی نے نصب الرایہ(1/ 238)میں بھی بیان کیا ہے۔وجوبِ فاتحہ خلف الامام کے ضمن میں ہم ’’فَصَاعِداً‘‘ کی بحث ذکر کر چکے ہیں،لہٰذا یہاں محض ان اشارات پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔البتہ انور شاہ کاشمیری حنفی کی ’’العرف الشذي‘‘ کے یہ الفاظ دہرا دیتے ہیں کہ فاتحہ کے ساتھ کسی دوسری سورت کا واجب ہونا لغت کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں،کیونکہ اہلِ لغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’ف‘‘ کے بعد غیر ضروری حکم ہوتا ہے،جیسا کہ سیبویہ نے اپنی ’’الکتاب‘‘ کے ’’باب الاضافۃ‘‘ میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔لہٰذا ’’فَصَاعِداً‘‘ اور دوسرے الفاظ پر مشتمل اضافہ سورت فاتحہ کے بعد کسی سورت کے واجب ہونے پر استدلال کے قابل نہ ہوا۔ حافظ ابن حجر نے امام ابن حبان اور امام قرطبی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے
Flag Counter