Maktaba Wahhabi

309 - 738
صاحب نے تو ’’فتاویٰ نذیریہ‘‘ میں مسئلے ہذا پر کافی بحث کی ہے۔من شاء فلیطالعہ۔ ’’تحفۃ القارئین‘‘ میں مرقوم ہے کہ ایک حرف کے دوسرے حرف سے بدل جانے میں فقہاے مذاہب کا قاعدہ معتبرہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ ایک حرف کا دوسرے حرف سے بدلنا دو طرح پر ہے: 1۔ یا تو ان دونوں حرفوں میں فرق کرنا آسان ہے،جیسے ’’ص ‘‘و ’’ط‘‘ اور ’’ب ‘‘و ’’ت ‘‘ اور ’’ق‘‘ و ’’ض‘‘ اور ’’س‘‘ و ’’ل‘‘ اور ’’ض‘‘ و ’’ل‘‘ اور ’’ض‘‘ و ’’دال‘‘ وغیرہ میں۔ 2۔ یا دشوار ہے،جیسے ’’ض‘‘ و ’’ظ‘‘ میں اور ’’ص‘‘ و ’’س‘‘ میں اور ’’ط‘‘ و ’’ت‘‘ میں۔پہلی صورت میں اگر معنی بگڑ جائیں تو نماز سب کے نزدیک فاسد ہو جاتی ہے اور دوسری صورت میں یعنی ’’ض‘‘ و ’’ظ‘‘ میں فرق نہ کر سکنے میں مذہب مختار کے مطابق اکثر فقہا کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوتی۔چنانچہ تمام کتب فقہ کے باب زلۃ القاری میں مسئلہ موجود ہے اور چونکہ ض اور دواد میں کچھ بھی مشابہت و مناسبت نہیں،اگر ’’ض‘‘ کو ’’دواد‘‘ پڑھا تو سب کے نزدیک نماز فاسد ہو جائے گی۔[1] فتاویٰ سراجیہ و تجنیس اور محیط سرخسی وغیرہ میں بھی اسی طرح مرقوم ہے۔محاسن العمل میں ہے کہ اکثر لوگ جو ضاد کو بصورت دال پڑھتے ہیں،غلط ہے۔تحفۃ القارئین میں ہے کہ ضاد کا تلفظ مثل دواد کے غلط محض ہے۔کسی کتاب معتبر و فقہ و تفسیر میں صوتِ ضاد کو صوتِ دال کے مشابہ یا عین دال نہیں لکھا۔ ضاد کے متعلق ادلہ عقلیہ اور الزامی جواب: ارشادِ الٰہی ہے: ﴿اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا﴾[الفاطر:6] ’’شیطان تمھارا دشمن ہے،تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو۔‘‘ یہ ملعون اپنی ہر تدبیر سے انسان کو خائب و خاسر کرنا چاہتا ہے۔چونکہ تلاوتِ قرآن اور نماز مہتم بالشان عبادات میں سے ہیں،اس لیے چاہتا ہے کہ ان میں خلل انداز ہو۔آخر یہ تدبیر کام میں لایا کہ کسی طرح تحریف و تبدیل کمائے اور اس کی خوبی لوگوں کے دل میں بٹھا دے تاکہ نیکی برباد و گناہ لازم کے مصداق ہوں۔چنانچہ اس لعین کو حرف ’’ض‘‘ میں تصرف کا موقع مل گیا۔اس کو بدل کر
Flag Counter