Maktaba Wahhabi

595 - 738
پھر سجدۂ سہو ضروری قرار دینے کی رائے رکھنے والوں کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ وَقَدْ رَدَّہُ(اَیْ حُکْمَ وُجُوْبِ سُجُوْدِ السَّہُوِ عَلَیْہَا)شُرَّاحُ الْمُنْیَۃِ اِبْرَاہِیْمُ الْحَلَبِیُّ وَابْنُ اَمِیْرِ الْحَاجِ الْحَلَبِیُّ وَغَیْرُہُمَا بِاَحْسَن‘‘ ’’(آخری رکعتوں میں)قراء ت پر سجدۂ سہو کے واجب ہونے کی رائے کو ’’منیۃ المصلی‘‘ کے بعض شارحین جیسے ابراہیم حلبی اور ابن امیر الحاج نے بہت اچھے انداز سے رد کیا ہے۔‘‘ اس قراء ت پر سجدۂ سہو کے قائلین کی طرف سے معذرت خواہانہ انداز سے یوں لکھا ہے: ’’وَلَا شَکَّ فِیْ اَنَّ مَنْ قَالَ بِذٰلِکَ لَمْ یَبْلُغْہُ الْحَدِیْثُ،وَلَوْ بَلَغَہُ لَمْ یَتَفَوَّہْ بِہٖ‘‘[1] ’’یقینا سجدۂ سہو کا فتویٰ دینے والے کو حدیث نہیں پہنچی،کیوں کہ اگر اسے حدیث پہنچ گئی ہوتی تو وہ ایسی بے بنیاد رائے نہ دیتا۔‘‘ پہلے ذکر کی گئی احادیث،آثارِ صحابہ،اقوالِ ائمہ،تصریحاتِ فقہا و محدثین اور علماء احناف کے بیانات سے یہ مسئلہ اب واضح ہو گیا ہے،جس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہی۔ امام کے پیچھے فاتحہ سے زائد قراء ت کرنا: اس سلسلے ماہنامہ محدث بنارس میں جناب مولانا محمد اعظمی،مؤناتھ بھنجن کا بھی ایک مضمون بہ عنوان ’’تحقیق مسئلۃ قراء ۃ بما زاد علی الفاتحۃ خلف الإمام‘‘ شائع ہوا ہے،جو مفید مطلب ہے،لہٰذا اسے یہاں نقل کرنا نامناسب نہیں ہوگا۔وہ لکھتے ہیں: ’’امام کے پیچھے سری اور جہری نمازوں میں سورت فاتحہ یا مطلق قرآن پڑھنے کے بارے میں اختلاف زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے،جو بہت مشہور ہے۔قراء تِ فاتحہ خلف الامام کے وجوب کی مشروعیت ناقابل تردید دلائل سے ثابت ہو چکی ہے۔رہا یہ مسئلہ کہ سری نماز میں مقتدی کا امام کے پیچھے سورت فاتحہ کے بعد مزید کوئی سورت یا آیات پڑھنا کیسا ہے؟تو اس کی مشروعیت بھی بہت سے شرعی دلائل سے ثابت ہے،البتہ بات صرف اتنی ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک سورت فاتحہ کے بعد مزید قراء ت ِ قرآن واجب ہے اور اکثر کے نزدیک مستحب ہے،اور یہی اصح و اصوب ہے۔چنانچہ امام بیہقی اس موضوع پر
Flag Counter