Maktaba Wahhabi

243 - 738
’’میں نے یکسو اور تابع فرمان ہو کر اپنے آپ کو اُس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔بے شک میری نماز و قربانی اور زندگی و موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔اُس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں اوّلین مسلمان ہوں۔اے اللہ!تو مجھے نیک اعمال اور اخلاق کی ہدایت فرما تیرے سوا کوئی بھی ان کی طرف راہنمائی نہیں فرما سکتا اور تُو مجھے بُرے اخلاق اور بُرے اعمال سے بچا،ان کی برائی سے تیرے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔‘‘ ایک غلط فہمی کا ازالہ: یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت اور تکبیرِ تحریمہ کہنے سے پہلے بھی ’’وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ … الخ‘‘ پڑھتے ہیں اور نیت کے الفاظ کہتے ہیں یا نیت کے الفاظ کے بعد یہ کہتے ہیں۔حالانکہ تکبیر تحریمہ سے پہلے نیت کے الفاظ کہنا سنت سے ثابت ہے اور نہ ’’وَجَّہْتُ وَجْہِیَ…‘‘ کہنا،بلکہ اس کے پڑھنے کی جگہ ثنا کا مقام ہے۔یعنی ان الفاظ کو ’’سُبْحٰنَکَ اللّٰہُمَّ …‘‘ کی جگہ پر پڑھنا چاہیے۔جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ سے مروی حدیث اور خصوصاً سنن ابو داود والے صریح الفاظ ’’کَبَّرَ ثُمَّ قَالَ‘‘ سے اور محمد بن مسلمہ رضی اللہ والی اس حدیث کے الفاظ ’’قَالَ:اَللّٰہُ اَکْبَرُ،وَجَّہْتُ وَجْہِیَ۔۔۔الخ‘‘ تکبیر تحریمہ سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں ہیں کہ ’’سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ‘‘ پڑھ لیں یا ’’وَجَّہْتُ وَجْہِیَ‘‘ اور ان دونوں کو جمع کر لینے کا پتا دینے والی بعض روایات بھی ہیں،لیکن ان پر محدثین نے کلام کیا ہے،جن کی تفصیل علامہ زیلعی کی ’’نصب الرایۃ‘‘(1/ 318۔320)میں دیکھی جا سکتی ہے۔شرح نقایہ اور کبیری میں علماء احناف نے بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تکبیر تحریمہ سے پہلے ’’وَجَّہْتُ وَجْہِیَ‘‘ پڑھنے کی کوئی قوی توجیہ نہیں ہے‘ خواہ نیت سے پہلے ہو یا بعد۔[1] جو لوگ اس بات کے عادی ہو چکے ہیں،انھیں یہ عادت ترک کرنی چاہیے اور جہاں پڑھنا مسنون ہے وہیں پڑھنا چاہیے،یعنی تکبیر تحریمہ کے بعد۔’’نمازِ مسنون‘‘ کے مولف نے پہلے شرح نقایہ اور کبیری سے نقل کیا ہے کہ ان الفاظ کے تکبیرِ افتتاح سے پہلے کہنے کی کوئی قوی توجیہ نہیں۔اب
Flag Counter