Maktaba Wahhabi

216 - 738
علامہ شوق نیموی حنفی ’’آثار السنن‘‘ میں اس حدیث کی سند کو حسن قرار دینے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں ’’عَلٰی صَدْرِہٖ‘‘ کا لفظ غیر محفوظ ہے۔جبکہ موصوف کی یہ بات صحیح نہیں،کیونکہ کسی ثقہ راوی کے کسی لفظ کو بیان کرنے میں منفرد ہونے کو اس کے غیر محفوظ ہونے کی دلیل قرار دینا اصولِ حدیث سے ناواقفیت والی بات ہے،بشرطیکہ وہ لفظ اوثق راوی کے بیان کردہ الفاظ کے منافی نہ ہو،جیسا کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے ’’نخبۃ الفکر‘‘ میں لکھا ہے: ’’وَزِیَادَۃُ رَاوِیْہِمَا مَقْبُوْلَۃٌ مَا لَمْ تَقَعْ مُنَافِیَۃً لِمَا ہُوَ اَوْثَقُ‘‘[1] ’’اور ان دونوں(صحیح و حسن)کے راوی کے روایت کردہ زائد الفاظ مقبول ہیں جب تک وہ اوثق کے منافی نہ ہوں۔‘‘ تیسری دلیل: سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائلین کی تیسری دلیل میں امام طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَضَعُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدَہِ الْیُسْرٰی ثُمَّ یَشُدُّ بِہِمَا عَلٰی صَدْرِہٖ وَہُوَ فِی الصَّلَاۃِ))[2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھتے تھے اور ان کو سینے پر باندھ لیتے تھے،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ہوتے تھے۔‘‘ اس حدیث کی سند جید و حسن درجے کی ہے۔یہ اگرچہ مرسل ہے،لیکن جمہور اہلِ علم کے نزدیک حجت ہے۔احناف کے نزدیک تو مرسل حدیث قطعاً حجت ہوتی ہے۔اور باقی رہ گئے وہ علما جو مرسل کو حجت نہیں مانتے جب تک کہ وہ مرفوعاً مروی نہ ہو یا اس کے شواہد نہ ہوں تو ان کے نزدیک بھی یہ حدیث قابلِ حجت ہے،کیونکہ اس کے دو شواہد ہم نے ذکر کر دیے ہیں جو حضرت وائل بن حجر اور حضرت ہلب بن طائی رضی اللہ عنہما کی احادیث سے مروی تھے۔[3] چوتھی دلیل: یہ تین دلائل تو بڑے واضح اور صریح ہیں،معمولی فہم و عقل رکھنے والا فوری طور پر ان سے بات
Flag Counter