Maktaba Wahhabi

158 - 738
(نعوذ باللہ)اس سے بے خبر ہی رہے اور اگر ہدایت وہ ہے جس پر وہ گامزن تھے اور وہی حق ہے تو پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا ہے؟‘‘ 3۔امام نووی رحمہ اللہ: ایسے ہی خیالات امام نووی رحمہ اللہ کے ہیں۔جن کی تفصیل ’’روضۃ الطالبین‘‘(1/ 224)اور ’’صفۃ صلاۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘(ص:42)میں دیکھی جا سکتی ہے۔ فقہاے احناف کے اقوال: زبانی نیت کے بارے میں کوئی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے مشائخ الاسلام امام نووی،ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمہم اللہ پر ہی بس نہیں،فقہاے احناف بھی دل کے ارادے کا نام ہی نیت بتاتے ہیں: 4۔صاحبِ ہدایہ: فقہ حنفی کی معروف و متداول کتاب ’’ہدایہ‘‘ کے ’’باب شروط الصّلاۃ‘‘ میں علامہ برہان الدین مرغینانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وَالنِّیَّۃُ ہِیَ الْاِرَادَۃُ،وَالشَّرْطُ اَنْ یَّعْلَمَ بِقَلْبِہٖ اَیَّ صَلَاۃٍ یُصَلِّیْ،اَمَّا الذِّکْرُ بِاللِّسَانِ فَلَا مُعْتَبَرَ بِہٖ‘‘[1] ’’نیت ارادے کا نام ہے اور شرط یہ ہے کہ دل سے معلوم ہو کہ وہ کون سی نماز پڑھنے لگا ہے۔اب رہا زبان سے نیت کرنا تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘ اس سے تھوڑا آگے موصوف نے لکھا ہے: ’’وَیَحْسُنُ ذٰلِکَ لِاِجْتِمَاعِ عَزِیْمَۃٍ ‘‘ ’’کہ عزم کی پختگی کے لیے زبان سے نیت کرنا مستحسن ہے۔‘‘ لیکن یہ محض ان کی ذاتی رائے ہے جو نیت کے لغوی و شرعی معنی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔لہٰذا اُن کے وہی الفاظ قابلِ عمل ہیں جو لغت و شرع ہر دو اعتبار سے نیت کے مفہوم و معنی کے مطابق ہیں۔ سنت نیت سے مراد: یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ فقہی کتب میں جو یہ مذکور ہوتا ہے کہ ’’زبان سے نیت
Flag Counter