Maktaba Wahhabi

155 - 738
کہ زبانی نیت کرنا مشروع نہیں ہے اور جس نے جہری نیت کی وہ خطاکار اور مخالفِ سنت ہے،اس پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے۔‘‘ اس کے علاوہ شیخ الاسلام موصوف نے متعدد دیگر مقامات پر بھی کئی سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے زبان سے نیت کرنے کا عدم جواز اور اس کی کراہت و بدعیت کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے: ’’مَحَلُّ النِّیَّۃِ الْقَلْبُ دُوْنَ اللِّسَانِ بِإِتِّفَاقِ اَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ جَمِیْعِ الْعِبَادَاتِ‘‘ ’’نیت کا مقام دل ہے نہ کہ زبان،اور تمام ائمہ اسلام کا تمام عبادات کے سلسلے میں ایسی ہی نیتِ قلبی پر اتفاق ہے۔‘‘ ’’نیت‘‘ کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے گراں قدر فتاویٰ کی تفصیل مطلوب ہو تو ’’مجموع الفتاویٰ‘‘(22/ 217۔255)کا مطالعہ بھی بڑا مفید ہے۔ 2۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ میں نیت کے موضوع پر بڑی عمدہ اور تحقیقی بات کہی ہے۔وہ نماز کے لیے زبان سے نیت کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلَاۃِ قَالَ:اللّٰہُ أَکْبَرُ،وَلَمْ یَقُلْ شَیْئًا قَبْلَہَا وَلَا تَلَفَّظَ بِالنِّیَّۃِ اَلْبَتَّۃً‘‘[1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور اس سے پہلے ہر گز کچھ کہتے نہ نیت کے الفاظ ادا فرماتے تھے۔‘‘ اس سے آگے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نیت کے الفاظ کسی صحیح تو کیا کسی ضعیف حدیث میں بھی وارد نہیں ہوئے۔یہ کسی مستند حدیث میں تو کیا ہوں گے،یہ تو کسی مرسل روایت میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔پھر ان کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا تو دُور کی بات ہے،یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی سے ماثور و منقول ہیں نہ تابعین و ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی نے زبان سے نیت کرنے کو مستحسن کہا ہے۔[2] لہٰذا صرف دل کی نیت و ارادے پر ہی اکتفا کرنا مسنون عمل
Flag Counter